مکرمی! آجکل ہر محب وطن پاکستانی شہری انتہائی پریشان اور مایوس کن صورتِ حال سے دوچار ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اقتدار کی رسہ کشی کا جو ملک میں تماشہ لگا رکھا ہے اس کا آخر کار انجام کیا ہو گا؟ سیاسی جماعتوں کے اکابرین اپنے بیانیوں سے ملک کو نجانے کدھر لے جا رہے ہیں۔ اداروں کی تضحیک ، مسلح افواج کے شہداء کے خلاف سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک منظم مہم کا آغاز، پھر مسلح افواج کے اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کا بیانیہ آخر ملک اور قوم کی کونسی خدمت ہے جو آپ سرانجام دے رہے ہیں۔ پنجاب کی موجودہ حکومت نے تو انتقام عداوت اور بغض کی آڑ میں آئین اور قانونی کی جو دھجیاں اُڑا رہی ہے آخر کار وہ قائد اعظم کے کون سے فرمودات پر عمل پیرا ہے۔ہمارے اندرونی اور بیرونی ازلی دشمن ان حرکات و سکنات پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں کیا ہم نے پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہم یہاں نفرت، انتشار، افراتفری ، عدم تعاون اور عدم برداشت کی یہ سیاست کو پروان چڑھائیں مشرقی پاکستان ہم سے اسی لیے علیحدہ ہوا کہ ہم نے قائد کے فرمودات ایمان، اتحاد، تنظیم کو بالائے طاق رکھ کر خلفشار، فرعونیت ، لسانیت، فرقہ پرستی اور خود پرستی جیسے فضا کی آبیاری کی ایک آمر حکمران نے تو نمبروں کی جنگ میں شریک ہو کر پاکستان کا سب کچھ اس میں جھونک دیا جس کا خمیازہ قوم ابھی تک بھگت رہی ہے۔ اقتدار کی لالچ اور حرص نے ہمیں اس حد تک اندھا کر دیا کہ ملک کو معاشی، اقتصادی، سماجی اور عسکری نقصان پہنچانے کے درپے ہو گئے۔ اقتدار اقتدار اقتدار یہ وہ سیاسی دُھن ہے جس کو بجا بجا کر اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر ہمارے سیاسی اکابرین اپنی ذاتی انائوں کی تسکین کی خاطر ہر جائز و ناجائز طریقے سے سلطنت کی باگ ڈور سنبھالنا چاہتے ہیں۔ ملک کی خدمت کے وہ خالی خولی نعرے ہیں جو وہ عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ہر سطح پر لگاتے ہیں۔ اگر پاکستان کو بے لوث حکمران مل جاتے تو یہ کب کا معاشی لحاظ سے ایشین ٹائیگر بن چکا ہوتا جو ملک کی حالت اس وقت ہے یہ سب ہمارے حکمرانوں کا کیا دھرا ہے عوام کا درد ان کے دلوں سے محو ہو چکا ہے۔ انہیں صرف اور صرف اپنی سیاسی دکانیں چمکانے کے لیے وہ حربے درکار ہیں جو ملک اور قوم کو ہر سطح پر کھوکھلا کر رہے ہیں۔ ملک کی بقا اور سلامتی کا نعرہ لگانا ان کی مجبوری ہے نہ کہ ان کی سیاسی کاوشوں کا ثمر ہے یہ میرے وطن سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے باوجود یہ قوم کے خادم کہلاتے ہیں ان کی سیاہ اعمالیوں کا سہولت کار بن کر میں بھی قوم کا اتنا ہی مجرم ہوں جتنا کہ یہ اس لیے کہ یہ میرے ووٹ سے ہی برسراقتدار آئے ہیں۔ میرا ضمیر مجھے بھی معاف نہیں کرتا اس لیے کہ میرا ووٹ بھی ہر انتخابی دنگل میں ذات پات برادری ازم، فرقہ پرستی، پیسے کی چمک دمک اور سیاسی وفاداریوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ میری سوچ ایک مجبور بے بس اور لاچار پاکستانی کی سوچ ہے جو سیاست کی بھول بھلیوں میں اُلجھ کر رہ جاتی ہے۔ (رانا ارشد علی ایم اے سیاسیات و معاشیات گجرات)