انسانی زندگی کی کہانی دو الفاظ پر مشتمل ہے (1)آمد (2)روانگی ۔ سب سے اہم ترین سوال۔ زندگی کِسی مقصد کے تحت گزاری ؟ یا بس دن پورے کیے ؟(2)دنیا سے رخصت ہونے کے بعد لوگ کِس طرح یاد کرتے ہیں ؟ کِن الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں یا پھر کسقدر ؟
قائد اعظم ایک کرشماتی شخصیت ۔ ایک دن جیل جائے بغیر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کا خواب پورا کر دکھایا ایک ایسی شخصیت جو ہمہ وقت بیش قیمت لباس۔ باوقار گفتگو اور نفیس طرز رہائش کی حامل تھی۔ مغربی لباس زیب تن کیے ہوئے اسلامی ریاست کی زبردست تحریک چلائی ۔ نہ داڑھی نہ سر پر عمامہ ۔ لباس سے کھانا تک مغربی انداز مگر عظیم الشان مقصد ۔ نیت صاف۔ ارادہ پکا تو چند لمحات کی بھی توڑ پھوڑ نہ کی اور نہ کروائی۔ ایک ثانیہ کو بھی ددغلا پن نہ اپنایا نہ دِکھایا ۔ حاضر ۔ غائب میں یکساں مگر اصولی ٹھوس موقف ۔ اس لئے خواب تو پُورا ہونا تھا۔قارئین ثابت ہو اکہ’’ حُلیہ درویشی کی ضمانت نہیں ہوتا‘‘ ۔
لمحہ موجود۔ 74سال پہلے ایک تنہا شخص مگر بہادر ۔ نڈر آنکھ اور پیٹ کابھرا ہوا۔ نتائج۔ پاکستان کا قیام ۔ آج نہ کوئی دشمن نہ انگریزوں کی حکومت نہ ہندؤوں کی طاقت کا خوف۔ آزاد مملکت کے آزاد حکام۔ اہلکار ۔ اشرافیہ اور طاقتور تاجر برادری ۔ 74سالوں سے عوام کے نمائندے چلے آرہے خاندان در خاندان۔ قیام پاکستان کی جدوجہد کے وقت شاید ایک دو مذہبی جماعتیں ہونگی اب ہزاروں ہیں ۔ حکومتوں ۔ سماجی زندگیوں میں بھرپور ۔ فیصلہ کن کردار کی حامل تنظیمیں ۔ نتائج ’’ٹرانس جینڈر‘‘ قانون کی منظوری ۔ پیشی سے لیکر قانون بننے تک ایک نے بھی مخالفت نہیں کی ۔ ہمارے معاشرتی حالات تو پہلے سے ہی دگرگوں تھے مخلو ط تعلیم ۔مخلوط محفلیں ۔ ایام منانے کی بدعت سے پریشان تھے کیونکہ نتائج انتہائی خوفناک شکل اختیار کرچکے ہیں اور اب یہ تازہ وار۔ قارئین ’’حُلیہ درویشی کی ضمانت نہیں ہوتا‘‘۔ تیزی سے بدلتے مفادات۔ خیالات اور عجب مناظر دِکھاتے ماحول میں ایک اور ریکارڈ ٹوٹ گیا۔
’’جیسے آخرت ہی نہیں ہے‘‘
مولانا طارق جمیل صاحب نے بڑے دلسوز پیرایہ میں فرمایا تھا ۔ الفاظ شاید مختلف ہوں کہ مخلوق بڑی تکلیف میں ہے کِسی کو پرواہ نہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’’جیسے آخرت ہی نہیں ہے ‘‘۔ ہے تو بڑا سچ مگر اُن کے لیے واقعی تلخ جو حقیقتاً ایسی سوچ فرض کیے بیٹھے ہیں ہمارا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو احساس تو رکھتے ہیں مگر اختیار نہیں اور بد قسمتی کہ جو اختیار رکھتے ہیں وہ احساس سے خالی ہیں پر یہاں بھی پُورا یقین ہے کہ میری فریاد اُوپر تک ضرور جائے گی اِس کائنات کا حقیقی مالک ۔ عارضی حکمرانوں کا ہمیشگی والا حکمران اعلیٰ ۔ اللہ تعالیٰ رحمان ۔ رحیم ۔کریم خوب جانتے ہیں کہ اپنے احکامات کی کیسے پابندی کروانی ہے۔ بخوبی آگاہ ہیں کہ کون مرتکب ہے اور کون مددگار اور کون خاموش ؟سُود جیسی موذی لعنت کے بعد دوسری بڑی سزا۔ ’’خادم پاکستان‘‘ کی توجہ چاہیے ۔ آپ ایک اسلامی ریاست کے وزیر اعظم بعد میں ہیں پہلے مسلمان ہیں۔ آپ اِس قانون کو فوراً واپس لیں ۔ کِس نے پیش کیا ؟ کن ممبران نے منظوری میں حصہ ڈالا ؟ یہ بحث نہیں بطور مسلمان ۔ بطور’’ حاکمِ وقت‘‘ ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اپنا کردار ادا کریں ۔ یقین ہے کہ ایک دیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والا ’’خادمِ پاکستان‘‘ ضرور پاکستانیوں کو تکالیف میں رکھنے والی چیزوں کو اول وقت میں ختم کر سکتے ہیں اور کر دینگے ۔انشاء اللہ آپ طاقت رکھتے ہیں اور اپنی طاقت استعمال بھی ضرور کریں گے ۔
’’میثاق اخلاق‘‘
مجھے تو بہت خوشی ہوئی کہ ’’ایک بیٹی‘‘ اپنے والد کو ملنے چلی گئی ۔ کیا ضروری ہے کہ ہر پہلو کو سیاست زدہ کرنا۔ کم از کم ذاتی زندگیوں کو تو عوامی موضوعات نہ بنایا جائے ۔ حالات ایسے ہیں کہ کِسی پر بھی چھلنی لگ گئی تو نیچے زمین پر صرف ’’چھان بورا ‘‘ ہی گرے گا اسلئیے ’’میثاق اخلاق‘‘ نامی کالم لکھا تھا ۔ شائع ہوئے ہفتہ گزر گیا ۔ سیاسی اخلاقیات مزید زوال کی طرف چلی گئی۔ بے حد افسوسناک چیزیں منظر پر آئیں ۔ لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہے۔ اِس حقیقت کو 80%لوگ سُنتے تھے اور جانتے بھی تھے مگر اب تو اِس تواتر ۔ تیزی ہے انکشافات ہو رہے ہیں کہ دماغ چکرا گیاہے ۔ ہم اُس دین حنیف کے پیروکار ہیں جس کے مالک رب ذی شان‘ اور داعی اعظم حضرت محمد خاتم النیبن ﷺ کا فرمان مبارکہ اور سنت سعید ہے کہ ماں باپ کے کمرے میں بھی بغیر اجازت داخل نہ ہوں۔ ضروری ہے کہ تمام فریق ذاتی لڑائی اور سیاسی اختلافات ختم کر کے مل بیٹھ کر ’’میثاق اخلاق‘‘ مرتب کریں۔ اس متفق علیہ دستاویز پرتمام سیاسی جماعتیں ۔ سماجی گروہ مشاورت کر کے اُس پر دستخط کر یں اسے ’’قومی چارٹر‘‘ قرار دیدیں ۔ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ سے منظور کروالیں بہت بڑی خدمت ہوگی۔ بلکہ ملک اور قوم کے لیے نیک شگون ثابت ہوگا۔
اسقدر خوبصورت زندگیوں کو آسانیاں فراہم کرنے والے دین اسلام کے جس پہلو کو بھی پرکھ لیں ہر حکم ۔فرمان کا نچوڑ انسانیت کی فلاح ۔ احترام ہر ذی نفس سے محبت ۔ اخلاق کی خصوصی تاکید۔ شخصی تحفظ کا سب سے اول ۔ عظیم علم بردار دین۔ ہر قسم کی سختی چاہے رویوں کی ہے یا زبان کی ممانعت کا سخت حکم ۔ اللہ رب العزت پسند نہیں کرتا کہ کِسی کی عزت پر ذراسی بھی آنچ آئے حتیٰ کہ دوران مجلس حاضرین کو اشاروں کنایوں سے بھی منع کیا اسلئیے ہم سب کو چاہیے کہ سیاست سے تعلق ہے یا سماج سے۔پابندی کریں آسمانی لازوال متبرک فرامین کی اور نبی رحمت خاتم النبین ﷺ کی سنت مبارکہ کی ۔اِسی میں ہماری فلاح ہے اور یہی ہماری معاشرتی زندگی کی بقا کی ضامن ہے۔