ازخود اختیار اور آئین کی تشریح و توجیہہ کا کھیل

ماشاء اللہ ہماری معزز عدلیہ بالخصوص سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ موجودہ دور کے درپیش اہم قانونی‘ آئینی‘ سیاسی اور سماجی مسائل کی گتھیاں سلجھانے اور گائیڈ لائن فراہم کرنے کیلئے شدومد کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ سپریم کورٹ کو آئین کی دفعہ 184  اور ہائیکورٹ کو آئین کی دفعہ 199 کے تحت انتظامی‘ حکومتی امور اور ادارہ جاتی ذمہ داریوں کے حوالے سے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات حاصل ہیں جو کبھی ضرورت سے زیادہ استعمال ہو جاتے ہیں اور کبھی ان اختیارات کے استعمال کی نوبت ہی نہیں آپاتی۔ عدلیہ مفاد عامہ کے معاملات میں خود نوٹس لینے کیلئے ’’پروبونو پبلیکو‘‘ کی قانونی اصطلاح بھی استعمال کرتی ہے اور ہائیکورٹ کو آئین کے تحت مفاد عامہ سے متعلق معاملات میں ’’کووارنٹو رٹ‘‘ جاری کرنے کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔ اسی طرح آئین کی شارح کی حیثیت سے سپریم کورٹ آئین کے کسی بھی سیکشن یا شق کی وضاحت کرنے کی اتھارٹی رکھتی ہے جس سے متعلقہ سیکشن یا شق پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کرانا مقصود ہوتا ہے۔ 
ازخود نوٹس لینے کے اختیارات سے متعلق مقدمات پر عدلیہ کا ریکارڈ بھرا پڑا ہے۔ اگر سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے کسی فاضل چیف جسٹس کی جانب سے ازخود اختیارات کو بروئے کار نہیں لایا گیا یا خال خال ہی لایا گیا تو انکے عرصۂ منصفی پر بہت کم ہی انگلیاں اٹھتی نظر آئی ہیں تاہم جن فاضل چیف جسٹس صاحبان کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کو فراخدلی کے ساتھ استعمال کیا گیا اور کبھی کبھار ان اختیارات کی حدود کراس ہوتی بھی نظر آئیں‘ انکے کئی فیصلے اور کارروائیاں متنازعہ بھی ٹھہرتی رہیں۔ 
اگر اس معاملہ کا مفصل احاطہ کیا جائے تو شاید ایک پوری کتاب مرتب ہو جائے۔ میں ان سطور میں ماضی قریب کے کچھ معاملات پر سرسری بات کرتے ہوئے عدل گستری کے موجودہ معاملات تک خود کو محدود رکھوں گا۔ دو روز قبل پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے اکٹھے منظوری نہ ہونے کیخلاف دائر ایک آئینی درخواست کی سماعت کے دوران آئین کی دفعہ 62 شق ایف بھی زیربحث آئی جس کے تحت قومی‘ صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کی رکنیت کیلئے متعلقہ شخص کا صادق اور امین ہونا لازمی ٹھہرایا گیا ہے اور یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ اسکے ریکارڈ میں ایسا کوئی عدالتی ڈکلیریشن شامل نہیں ہوگا جس کے تحت اسکے صادق اور امین ہونے کے بارے میں کوئی سوال اٹھایا گیا ہو۔ آئین کی اس شق کے صادق اور امین والے الفاظ تبدیل کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے پہلے ہی آئینی ترمیمی بل پیش کیا جا چکا ہے جس میں درحقیقت اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ صادق اور امین صرف نبیِ آخرالزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے اور انکے سوا کسی بھی دوسرے شخص کیلئے صادق و امین کا خطاب زیبا نہیں۔ دفعہ 62 میں شق ایف 18ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین پاکستان کا حصہ بنائی گئی تھی اور مقامِ حیرت ہے کہ پیپلزپارٹی کے چوتھے دور کی جس اسمبلی میں یہ ترمیم متفقہ طور پر منظور ہوئی اس میں کوئی ایک بھی ایسا صاحب الرائے موجود نہیں تھا جسے اس ترمیم کی وجہ سے لفظ صادق اور امین کا تقدس مجروح ہونے کا احساس ہوا ہو۔ چلیں! اب نئی ترمیم سے صادق اور امین کے متبادل الفاظ شامل ہو جائیں گے مگر جسٹس ثاقب نثار کے دور میں عدالت عظمیٰ نے تو اس آئینی شق کی تشریح کرتے ہوئے کمال ہی کر دیا۔ آئین کی اس شق کے تحت اسمبلیوں اور سینٹ کا جو رکن صادق اور امین کی تعریف پر پورا نہیں اترے گا وہ اپنی منتخب رکنیت سے نااہل قرار پائے گا۔ ماضی میں اس حوالے سے نااہلیت کی میعاد پانچ سال ٹھہری تھی مگر جب جسٹس ثاقب نثار کے عہد منصفی میں اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف اور متعدد دوسری سیاسی اور مقتدر شخصیات کے نام پانامہ لیکس میں منظرعام پر آئے اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر عمران خان نے اس پر سیاست کا بازار گرم کیا تو یہ معاملہ بھی فاضل چیف جسٹس کے ازخوداختیارات کی زد میں آگیا۔ پانامہ کا کیس کچھ اور تھا مگر میاں نوازشریف اپنے بیٹے کی متحدہ عرب امارات میں موجود کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں گردن زدنی ٹھہرے اور سپریم کورٹ نے انہیں صادق اور امین کے دائرے سے باہر نکال کر تاحیات نااہل قرار دے دیا جس کی بنیاد پر انہیں وزارت عظمیٰ اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے ہی ہاتھ نہ دھونا پڑے بلکہ وہ اپنی پارٹی کی قیادت سے بھی محروم ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی بنیاد پر بے شک پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین اور سینیٹر فیصل وائوڈا بھی تاحیات نااہل ہوئے مگر اب یہ نکتہ شدومد کے ساتھ اٹھایا گیا ہے کہ آئین کی دفعہ 62 شق ایف میں صادق اور امین نہ ہونے کی تاحیات نااہلی کی سزا تو کہیں درج ہی نہیں تو متعلقہ سیاست دان اس سزا کے مستوجب کیسے ہوگئے۔ گزشتہ روز پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ محترم عمر عطاء بندیال نے تو اپنے ریمارکس میں تاحیات نااہلی کی سزا کو ڈریکونین تک قرار دے دیا۔ 
تو کیا اب آئین کی دفعہ 62۔ایف کی تشریح کے حوالے سے جسٹس ثاقب نثار کی زیرقیادت سپریم کورٹ کے متعلقہ فیصلے کے حوالے سے یہ سوال نہیں اٹھایا جا سکتا کہ جو سزا آئین کی متعلقہ شق میں موجود ہی نہیں‘ وہ ملزمان کے گلے میں کیسے ڈال دی گئی۔ یقیناً اب نظرثانی کی درخواست پر عدالت عظمیٰ اس جانب بھی ’’اصلاح احوال‘‘ کی ضرورت محسوس کریگی مگر آئین کی تشریح کے حوالے سے عدلیہ میں ایسی نادر نظیریں تو بدستور سامنے آرہی ہیں۔ فاضل چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں ہی عدالت عظمیٰ کے ایک بنچ نے آئین کی دفعہ 63۔اے‘ شق بی کی تشریح کرتے ہوئے کسی پارٹی کے سینیٹر یا رکن اسمبلی کو اپنی پارلیمانی پارٹی کے فیصلہ کیخلاف ووٹ کا حق استعمال کرنے سے پہلے ہی اسکی سینٹ یا اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا راستہ دکھا دیا جبکہ آئین کی متعلقہ دفعہ کی متعلقہ شق میں صراحت کے ساتھ یہ تحریر کیا گیا ہے کہ اگر کوئی سینیٹر یا رکن اسمبلی وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ کے انتخاب‘ انکے خلاف عدم اعتماد یا ان پر اعتماد کی تحریک اور فنانس بل پر اپنی پارلیمانی پارٹی کے فیصلہ کیخلاف ووٹ دیگا یا ووٹ دینے سے اجتناب کریگا تو پارٹی سربراہ اسکی سینٹ یا اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کیلئے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا مجاز ہوگا۔ عدالت عظمیٰ کے فاضل بنچ نے آئین کی متعلقہ شق میں کسی ترمیم کے بغیر (جو سراسر پارلیمنٹ کا دائرۂ اختیار ہے) ووٹ کا حق استعمال کرنے سے پہلے ہی سینٹ یا اسمبلی کی رکنیت سے نااہلیت کا راستہ تو نکال دیا مگر جب اسی عدالتی فیصلہ کی بنیاد پر پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر پارٹی کے فیصلہ کیخلاف ووٹ دینے پر مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین نے اپنی پارٹی کے متعلقہ ارکان کیخلاف نااہلیت کا ریفرنس بھجوایا تو اس پر آئین کی دفعہ 62 کی شق ایف کی کوئی اور تشریح نکل آئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی عدل گستری کے موجودہ دور میں آئین کی تشریح اور عدالتی اختیار کے کئی اچھوتے پہلو سامنے آئے ہیں۔ 
آئین کی تشریح کے حوالے سے ایک معاملہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بھی خراب کیا تھا جو اس وقت بھی اداروں کے گلے پڑا ہوا ہے۔ یہ معاملہ تھا آئین کی دفعہ 64‘ شق ایک کا جس کے تحت آئین میں دوٹوک الفاظ میں قرار دیا گیا کہ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا کوئی بھی رکن سپیکر/ چیئرمین سینٹ کو مخاطب کرکے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا استعفیٰ متعلقہ مجاز فورم کو بھجوائے گا تو اسی وقت اس کی نشست خالی ہو جائیگی۔ سردار ایاز صادق نے اسکے برعکس کام کیا اور اسمبلی رولز کا سہارا لے کر پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے بھجوائے اجتماعی استعفوں کے اوپر بیٹھ گئے اور رولنگ دے دی کہ چونکہ متعلقہ ارکان نے یہ استعفے خود پیش ہو کر ٹنڈر نہیں کئے اس لئے نامنظور ہیں۔ آئین کی متعلقہ شق سے کھیلنے کی یہی روش اب موجودہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے بھی اختیار کی ہے جس کیخلاف پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے تو فاضل چیف جسٹس نے عمران خان سے استفسار کیا ہے کہ وہ اپنے ووٹروں کی منشاء کے بغیر ایوان سے باہر کیوں نکلے ہیں۔ 
جناب! آئین و قانون کو موم کی ناک بنا کر اوراپنے مقصد اور فائدے کے تحت اسکی من پسند تشریح کرکے اسکے ساتھ کھیلا جائیگا تو پھر آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور کسی اور ہی معاشرے کیلئے رکھ چھوڑیں۔ ہم دقیانوسی قوم ہونے کے ناطے اسکے ہرگز قابل نہیں۔ باقی رہے نام اللہ کا۔ 

ای پیپر دی نیشن