وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت وزیراعظم ہائوس میں حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتوں کے قائدین اور رہنمائوں کا اجلاس منعقد ہوا جس میں عمران خان کی آزادی مارچ کی متوقع کال کے پیش نظر لائحہ عمل طے کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئین اور قانون کی حدود کو پھلانگ کر وفاقی دارالحکومت پر دھاوا بولنے کی خواہش رکھنے والوں کو اسکی اجازت نہیں دی جائیگی۔ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کو وارننگ دی گئی کہ وہ عمران خان کے آلۂ کار بن کر فساد کی راہ ہموار کرنے سے باز رہیں۔ آئینی لکیر پار کرنے پر قانون کا سامنا کرنا ہوگا۔
پرامن احتجاج ایسا حق ہے جس کی آئین خود ضمانت دیتا ہے اس لئے احتجاج کرنا کسی بھی شخص یا سیاسی پارٹی کا آئینی اور جمہوری استحقاق ہے۔ عمران خان کی اولین ترجیح تو آئین و قانون کے مطابق ایوان میں بیٹھ کر اپنا مؤثر کردار ادا کرنے کی ہونی چاہیے جس کیلئے عوام نے انہیں منتخب کیا ہے۔ چند روز قبل چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس ریکارڈ پر ہیں جس میں انہوں نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو باور کرایا کہ عوام نے تحریک انصاف کو پانچ سال کیلئے منتخب کیا ہے‘ اسے پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ گزشتہ روز بھی سپریم کورٹ نے استفسار کیا ہے کہ عمران خان عوام کی مرضی کے بغیر اسمبلی کیسے اور کیوں چھوڑ آئے۔ عمران خان بہترین اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کر چکے ہیں ‘ اگر وہ اپنے تحفظات کا اظہار ایوان کے مجاز فورم پر بیٹھ کر کریں تو زیادہ مناسب ہے۔ اگر وہ احتجاج پر ہی مصر ہیں تو وہ قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا یہ حق استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر احتجاج کی آڑ میں افراتفری اور جلائو گھیرائو کی سیاست کی گئی اور قانون کو ہاتھ میں لیا گیا تو حکومت کو بھی مجبوراً قانون کو حرکت میں لانا پڑیگا کیونکہ امن و امان بحال رکھنا اسکی آئینی ذمہ داری ہے۔ لانگ مارچ کے حوالے سے پنجاب کے وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر بھی دوٹوک الفاظ میں باور کرا چکے ہیں کہ عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو پنجاب حکومت اس کا حصہ نہیں بنے گی۔ اس لئے بہتر ہے کہ عمران خان احتجاج کا راستہ ترک کرکے ایوان کے اندر اپنا مؤثر کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دیں جس کیلئے انہیں وزیراعظم شہبازشریف بھی ایوان میں آنے کی پیشکش کر چکے ہیں۔ اس وقت ملک جس مشکل دور سے گزر رہا ہے‘ اسکے پیش نظر ملک سیاسی عدم استحکام کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے حالات کو اس نہج پر نہ لے جایا جائے جو جمہوریت کو ڈی ٹریک کرنے پر منتج ہو۔