پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیاست میں فوج کے کردار کی دو ٹوک الفاظ میں نفی کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مسلح افواج خود کو سیاست سے دور کر چکیں اور دور ہی رہنا چاہتی ہیں۔ آرمی چیف نے ، جو ان دنوں امریکہ کے دورہ پر ہیں‘ پاکستانی سفارتخانہ واشنگٹن کی طرف سے دیئے جانے والے ظہرانے کے موقع پر اجتماع سے خطاب اور غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر سبکدوش ہونے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اپنی دوسری تین سالہ مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ تحریک قیام پاکستان ایک خالص جمہوری جدوجہد تھی جسے قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی بصیرت‘ تدبر اور حکمت سے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ بانیٔ پاکستان چونکہ جمہوریت پر یقین رکھتے تھے‘ اس لئے انکے ذہن میں امور حکومت و مملکت میں ریاستی اداروں کے کردار و اختیار کے بارے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ بدقسمتی سے وہ پاکستان کے قیام کے تھوڑے عرصہ بعد ہی راہی ملک عدم ہوگئے۔ ان کے بعد لیاقت علی خان نے مملکت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ انہی کے دور میں اس وقت کے کمانڈرانچیف جنرل گریسی کی مدت ملازمت ختم ہونے پر جنرل ایوب خان کو کمانڈرانچیف مقرر کر دیا گیا ۔
نوابزادہ لیاقت علی خان کے د ور ہی میں حکومت کی امور ِ مملکت پر گرفت کمزور ہو گئی تھی ۔وہ لوگ اقتدار کی راہ داریوں میں گھومتے پائے گئے جن کا نہ تو تحریک پاکستان سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی وہ بانیان ِ پاکستان کے وژن سے کوئی ذہنی مطابقت رکھتے تھے ۔چنانچہ محلاتی سازشوں نے زور پکڑ لیا ۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام نے حکومت کی تبدیلی کی راہ ہموار کی اور ملک انتشار، بدامنی اور انارکی کا شکار ہوتا چلا گیا ۔ سکندر مرزا نے کمانڈر انچیف ایوب خان کو وزیر دفاع بنا کر حکومتی معاملات اور سیاست میں فوج کے عمل دخل کی ابتداء کی جسے ایوب خان نے پروان چڑھایا ۔
ایوب خان امورمملکت میں غیرمعمولی دلچسپی رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک منصوبے کے تحت پہلے سکندر مرزا کو ان کے عہدے سے سبکدوش کیا اور پھر ملک کی عنان اقتداربھی سنبھال لی۔ جنرل ایوب 10 سال سے زائد عرصہ تک پاکستان کے حکمران رہے۔ انکے بعد کوئی سول حکومت یکسوئی کے ساتھ امور مملکت نہ چلا سکی۔ ایوب خان کے بعد جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویزمشرف نے منتخب سول حکومتوں کو گھر بھجوا کر خود ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ ان ادوار میں نہ صرف پاکستان نظریاتی طورپر کمزور ہوا بلکہ اسکے ریاستی ادارے بھی کمزور ہوتے چلے گئے۔ آئین کی حیثیت پر کاہ کے برابر بھی نہ سمجھی گئی اور 1973ء کے متفقہ آئین کو بھی معلق اور معطل کیا جاتا رہا اور اس طرح مقتدر حلقوں کے امور حکومت میں عمل دخل کے راستے ہموار ہوتے گئے۔ اسی تناظر میں پاکستان میں جمہوریت پوری طرح اپنے پیروں پر آج تک کھڑی نہیں ہو سکی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی جانے والی قومی اتحاد کی تحریک کے قائد ایئر مارشل اصغر خان نے باقاعدہ چٹھی لکھ کر آرمی چیف کو مداخلت کی اپیل کی تھی۔ سیاستدانوں کی اس کمزوری کی وجہ سے ہی ملک کے ادارے اپنی وقعت کھوتے گئے اور حکومتوں کی کامیابی یا ناکامی کے پیچھے بادی النظر میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نظر آتا رہا ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں جب تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو مخالف سیاست دانوں نے کھلے الفاظ میں اس پر سلیکٹڈ کا لیبل لگایا اورجب عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت کو فارغ کیا تو عمران خان خود کو نیوٹرل قرار دینے والے ادارے کو مورد الزام ٹھہرانے اور انہیں ’’حق‘‘ کے ساتھ کھڑا ہونے کی آج بھی ترغیب دیتے نظر آرہے ہیں۔یہ سوچ درحقیقت بیمار ذہن کی پیداوار ہے جس میں ریاستی اداروں کے آئین سے متجاوز کردار کی توقع کی جاتی ہے۔ اسی تناظر میں عمران خان نے آرمی چیف کے تقرر کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ اب ان کا تازہ بیان آیا ہے کہ آرمی چیف جو بھی آئے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ، تقرر میرٹ پر ہونا چایئے من مرضی کا نہیں ۔حالانکہ یہ طے شدہ امر ہے کہ آرمی چیف کا تقرر وزیراعظم کا صوابدیدی آئینی اختیار ہے البتہ انہوں نے سینیارٹی کے اصول کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے، آئین سے ماورا کوئی قدم نہیں اٹھایا جاسکتا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کہہ دیا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل رواں ماہ کے آخر یا اگلے ماہ کے آغاز میں شروع ہوگا اور پانچ سینئر ترین جرنیلوں میں سے کسی ایک کو آرمی چیف بنا دیا جائے گا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہ ہونے اور مدت ملازمت کی تکمیل کے بعداپنے سبکدوش ہونے کا جن واشگاف الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے‘ اسکے بعد آرمی چیف کے تقرر پر کسی بحث‘ مباحثہ یا سیاست کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق آرمی چیف کی تقرری کا عمل طے پاجائیگا جبکہ افواج پاکستان کے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کیلئے انکی جو آئینی اور قانونی حدود متعین ہیں‘ انکے اندر رہنے کا آرمی چیف متعدد مواقع پر اعادہ کرچکے ہیں اس لئے اس بارے میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اب ہمارے سیاسی رہنمائوں پر واجب ہے کہ وہ امور حکومت ومملکت کی انجام دہی کیلئے کسی دوسرے ریاستی ادارے کی جانب دیکھنے کی بجائے اپنے معاملات خود چلانے کی کوشش کریں۔