راولپنڈی (اپنے سٹاف رپورٹر سے )لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف دائر پٹیشن میں ریمارکس میں کہا کہ ایسی تشہیر میں ملوث ملزمان وطن عزیز، ریاستی اداروں، آرمڈ فورسز کے خلاف بھی توہین آمیز مہم چلا رہے ہیں یہ ملزمان وطن عزیز پاکستان کی بنیادیں ہلانے کے در پے ہیں۔ پی ٹی اے اشتہار کو مزید بہتر کرے اور عوام کو آگاہی دے کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث ہونے کی سزا سزائے موت''ہے جب قانون میں جس جرم کی سزا سزائے موت ہے تو پی ٹی اے اسے اشتہار میں واضح کرنے سے کیوں ڈرتی ہے مقدس ہستیوں کی عزت و ناموس کے معاملے پر ہمیں کوئی معذرت خواہانہ رویہ نہیں اختیار کرنا چاہئے ہمارے اس رویئے کی وجہ سے ہی آج صورتحال خطرناک ہو چکی ہی عدالت عالیہ نے نے حکم دیا کہ ٹی وی چینلوں پر یہ اشتہار پرائم ٹائم میں چلائے جائیں عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ٹی وی چینل پرائم ٹائم میں صرف وہ اشتہارات چلاتے ہیں جن کے پیسے انہیں ملتے ہیں حالانکہ سب کچھ پیسہ نہیں ہوتاٹی وی چینلز کے مالکان کو ملک کا بھی کچھ سوچنا چاہیے اورملک کی سلامتی کے لئے بھی کچھ کرنا چاہئے عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ ہم اس کیس میں جذبات کے مطابق کوئی فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ اس کیس کا فیصلہ آئین،قانون اور اپنے حلف کے مطابق کریں گے عدالت نے ایف آئی اے اور پی ٹی اے کی جانب سے اس حوالے سے کئے گئے اقدامات کو ایک بار پھر غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے دونوں اداروں سے دوبارہ رپورٹ طلب کر لی اور پٹیشن کی سماعت10اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے ۔عدالت عالیہ نے رپورٹ پرعدم اطمینان کا اظہارکر تے ہوئے ایف آئی اے کو سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف ملک بھر میں موصول ہونے والی درخواستوں کے متعلق جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیاعدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو نمبر گیم میں مت الجھائیں اورپیر کو جامع رپورٹ پیش کریں کہ گزشتہ چند سالوں میں مجموعی طور پر سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف کتنی درخواستیں ایف آئی اے کو موصول ہوئیں۔ یہ رپورٹ طلب کرنے کا مقصد ایف آئی اے کی کارکردگی کا جائزہ لینا نہیں ہے بلکہ عدالت عالیہ دیکھنا چاہتی ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف کتنی درخواستیں ملی ہیں ہوئیں عدالت دیکھنا چاہتی سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کی شدت کس حدتک ہے عدالت نے ڈپٹی ڈائریکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے پہلے والے ڈپٹی ڈائریکٹر نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں لاکھوں لوگ ملوث ہیں اوراگر یہ تعداد ایسی ہی ہے تو پھر اس کے خلاف اقدامات بھی خصوصی نوعیت کے ہی کرنے ہوں گے ۔ہم سب نے آئین،قانون اور اپنے حلف کے مطابق ملک کا تحفظ کرنا ہے دوران سماعت عدالت کے روبرو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے 95 فیصد ملازمین کو گزشتہ کئی ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے کا بھی انکشاف ہوا جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں ملازمین کنٹریکٹ پر بھرتی ہوئے ہیں جس پر ڈپٹی ڈائریکٹر نے تصدیق کی کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے 95 فیصد ملازمین کنٹریکٹ پر بھرتی ہیں جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ عدالت کو معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ملازمین کی تنخواہوں کا بھی کوئی مسئلہ ہے تو ڈپٹی ڈائریکٹر نے بتایا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ملک بھر 95 فیصد ملازمین کو جون کے مہینے سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوسکی جس پر عدالت عالیہ نے برہمی کااظہارکرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عدالت ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر وفاقی سیکریٹری داخلہ اور وفاقی سیکریٹری خزانہ کو طلب کرسکتی ہے ۔
ہائیکور
گستاخانہ مواد کیس‘ یہ ملزم اداروں کیخلاف مہم میں بھی ملوث: ہائیکورٹ
Oct 07, 2022