آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے واشنگٹن میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ وہ بطور آرمی چیف کوئی توسیع نہیں لے رہے اور یہ کہ نومبر میں نیا آرمی چیف آ جائے گا۔ مزید کہا کہ فوج غیر سیاسی ہے، غیر سیاسی رہے گی اور نیا چیف بھی سیاست میں مداخلت نہیں کرے گا۔
سب اس اعلان کی تعریف کر رہے ہیں لیکن ہمارے خیال میں چیف صاحب نے اچھا نہیں کیا۔ کئی ٹی وی سکرینوں پر ”ایکسٹینشن“ کے سوال نے رونق لگائی ہوئی تھی، اس اعلان نے اس رونق کو بے رونقی میں بدل دیا۔ اب بے چارے میزبانوں اور مہمانوں کو نئی ”شرلی“ ڈھونڈنا پڑے گی۔ اس دوران شو تو ہوتے رہیں گے لیکن مولوی مدن کی سی بات تو جاتی رہے گی اور نئی شرلی پتہ نہیں کتنی چلے کتنی نہ چلے، خلاصہ یہ کہ جنرل صاحب نے اچھا نہیں کیا۔ کچھ دن اور یہ ھماھمی رہنے دیتے۔
________________
ادھر کسی کا دل بھی تو ٹوٹا ہے۔ صاحب اداس اداس، بولائے بولائے پھر رہے ہیں اور کوئی یہ پوچھنے کا تردّد بھی نہیں کر رہا کہ
کس نے توڑا ہے دل حضور کا۔
یعنی سارے پلان کا دار و مدار توسیع پر تھا۔ یہ کہ نئے چیف کی تقرری اس حکومت کو نہیں کرنے دیں گے، حکومت پر لازم ہے کہ وہ توسیع کرے، اسی توسیع میں الیکشن ہوں، الیکشن کے نتیجے ہمارے حق میں آئیں، پھر ہم آئیں اور اپنی مرضی کا چیف لائیں۔
فرمائیے، اب حکومت پر کیا دباﺅ ڈالیں گے یہ بانکے میاں کہ جن کو توسیع دینا تھی، وہی نہیں مان رہے تو حکومت کیا کرے۔
خواجہ آصف کہ زخمی دلوں پر عام نہیں، کالا نمک بلکہ تیزابی نمک چھڑکنے کی اذیت پسندی کے مریض ہیں، فرماتے ہیں کہ نومبر والی ناکامی نے بانکے میاں کو دماغی مریض بنا ڈالا ہے۔
افسوس کی بات ہے یعنی اگر بات یہی ہے جو خواجہ صاحب فرما رہے ہیں تو یہ معاملہ انسانی ہمدردی کا ہے نہ کہ کالا نمک چھڑکنے کا۔ دماغی مریضوں کا کوئی مذاق نہیں اڑاتا، یہ خواجہ صاحب اڑا رہے ہیں۔ دہائی ہے۔
________________
پنجاب پارٹی اجلاس میں بانکے میاں نے کچھ اضلاع کو رعایت دے دی ہے کہ چلو چھ چھ ہزار نہیں لا سکتے تو چار چار ہزار ہی لاﺅ۔ خبر چھپ گئی ہے۔ سوال ہے کہ بے چارے چار ہزار بھی نہ لا سکے تو کیا ہو گا؟۔
حکم یہ بھی ہوا کہ چار چار یا چھ چھ ہزار کی فہرستیں پہلے فراہم کرو، وہ فہرستیں بانکے میاں دیکھیں گے، پھر فیصلہ کریں گے کہ لانگ مارچ کب کرنا ہے۔ کرنا ہے یا نہیں کرنا ہے۔
گویا را دھا کو حکم ہوا ہے کہ نو من تیل بھی وہی لائے۔ بانکے میاں تو بس بیٹھ کر ”پلیاّں“ (بلائیں) لیں گے۔
________________
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ریلوے کو ٹھیک ہونے میں 20 سال لگیں گے۔
صاف کہہ دیتے کہ ریلوے اب ٹھیک نہیں ہونے کا۔ 20 کی جگہ سو سال بھی کہہ دیتے تو کیا فرق پڑتا۔ یہ بھی واضح نہیں کہ 20 سال بعد ریلوے ٹھیک ہو جائے گا یا ٹھیک ہونا شروع کر دے گا۔
قصور خواجہ صاحب کا بہرحال نہیں۔ عمران خان اپنے پورے چار سال کے دور میں شیخ رشید کے ذریعے ریلوے پر فاتحہ پڑھ چکے۔ جہاں ہر شعبہ معیشت کا انہوں نے ”لاعلاج“ کر کے رکھ دیا یا کھنڈر بنا دیا، وہاں ریلوے کیوں بچتا۔ ریلوے سے ”کلیان“ تو وہ مقدس خواب یا پوتر سپنا تھا جو ہر دو مذکورہ بالا کے مرشد اوّل ضیاءالحق نے دیکھا اور مرشد دوئم مشرف نے اسے عملی تعبیر دی۔ جو بچی کھچی ریلوے تھی، اس پر بلڈوزر عمران اور شیخ رشید نے پھیرا۔
انگریز سے جو ریلوے ورثے میں ملا، وہ بھارت ریلوے ایسا شاندار تو نہیں تھا، پھر بھی غنیمت تھا لیکن ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ برانچ لائنیں تو قریب قریب سبھی بند ہو گئیں اور رہی مین لائن تو اس پر آنے جانے والی ٹرینیں بس دو چار ہی رہ گئیں
بال دپر دوچار دکھلا کے کہا صیّاد نے
یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب
________________
نواز شریف کے دور میں جو اعلانات ہوئے وہ ایسا خواب نکلے جس کی تعبیر بذریعہ شمشیر روک دی گئی ہو۔ سی پیک بہت بڑا منصوبہ تھا، لگتا تھا ریلوے کی نشاة ثانیہ بھی یہی کرے گا۔
بلوچستان کا وسیع و عریض بلوچ علاقہ ایسا ہے جہاں ریلوے لائن کا تصور تک بھی نہیں ہے (واحد لائن پشتون علاقے میں ہے) سی پیک کا نقشہ لانچ ہوا تو پتہ چلا کہ گوادر سے ایک عظیم الشان ریلوے لائن شمال میں جائے گی اور پھر وہاں لبسیما(خضدار) سے اس کی ایک شاخ کوئٹہ سے، دوسری جیکب آباد سے جا ملے گی۔ بلوچستان کو بھی ریلوے لائن مل جائے گی اور مین لائن بھی مزید تگڑی ہو جائے گی۔ ساتھ ہی کوئٹہ سے ایک اور لائن نکلے گی جو ڈیرہ اسمعٰیل سے ہوتے ہوئے دریا خاں کی پنڈی ملتان برانچ لائن سے جا ملے گی۔ یوں ریلوے لائن پہلی بار چاروں صوبوں کی زنجیر بنے گی اور یہی زنجیر حویلیاں سے شمال کو جو پھیلے گی تو کاشغر (حیل) کی خبر لائے گی۔
اے بسا آرزو کہ خاک بلکہ راکھ شدہ۔
2014 ءمیں جو دھرنا ہوا، اس نے سی پیک ، ریلوے سمیت ہر شے ہی بھسم کر دی۔ اب وہ الاﺅ پانچ مہینے پہلے بجھا دیا گیا لیکن جھلساﺅ بدستور جاری ہے۔ چلئے، وہ نہ رہا تو یہ بھی نہیں رہے گا۔ نیا سفر کبھی شروع ہوا تو زیرو سے شروع ہو گا۔
________________
کراچی کبھی عروس البلاد تھا، اب یتیم البلاد ہے، شہر کسمپرساں۔ وفاق کہتا ہے ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں، سندھ کی حکمران جماعت کہتی ہے ہمارے بھی اختیار میں نہیں، بلدیاتی حکام کہتے ہیں ہمارے بس میں بھی کچھ نہیں۔
جرائم، عدم صفائی، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، بے روزگاری کے علاوہ ایک اور مسئلہ ”شیڈنگ“ کا ہے، یعنی ہر قسم کی شیڈنگ ۔ کبھی بجلی بند، کبھی گیس بند، کبھی پانی بند، کبھی تینوں بند....ابھی ایک شہری کا شکوہ سامنے آیا ہے کہ ان کے علاقے کلفٹن کے بلاک نمبر ایک میں کئی مہینوں سے گیس کی لوڈشیڈنگ چل رہی ہے، 24 گھنٹے ، سات دن چار ہفتے کے حساب سے یعنی مطلق بند ہے۔ انوکھی خبر، انوکھا ماجرا اور مزید انوکھی بات کہ کوئی شنوائی نہیں ہے۔ لوگ ڈیفنس جاتے ہیں، وہاں سے کھانا پکا کر لاتے ہیں۔
کراچی کے مسئلے زیادہ گھمبیر تب سے ہوئے جب سے یہ فیصلہ ہوا کہ کراچی کے لوگوں کا ووٹ دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ چنانچہ 2018ءکے انتخابات میں چودہ سیٹوں پر ”نامزدگیاں“ کی گئیں، وہ لوگ قومی اسمبلی کے رکن بنے جنہیں شہر والوں نے ووٹ دئیے ہی نہیں تھے۔ تب سے یہ شہر ”لامکاں“ میں ہے۔ اللہ کراچی والوں کے لیے پردہ غیب سے کچھ مدد فرمائے تو فرمائے ورنہ امید و امکان کے سبھی در بند ہیں۔
________________