نیب ترامیم ، 49کروڑ تک کرپشن ٹھیک زیادہ غلط لگتی ہے، سپریم کورٹ 

Oct 07, 2022


اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف کیس میں نیب نے گزشتہ 21 سال کے دوران ہونے والی پلی بارگین کی تفصیلات جمع کرا دیں۔ چیف جسٹس کے استفسار پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نیب ترمیم کے ذریعے 280 سے زائد مقدمات واپس ہوئے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نئے قانون کے مطابق احتساب عدالت اور نیب ہاتھ کھڑے کر دے گی۔ سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی خصوصی بینچ نے کی۔ دوران سماعت نیب نے گزشتہ 21 سال کے دوران ہونے والی پلی بارگین کی تفصیلات جمع کرا دیں جس کے بعد عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیاکہ ترمیم کے تحت دباؤ کا الزام لگنے پر پلی بارگین منسوخ ہوجائے گی، منسوخ ہونے پر پلی بارگین کے تحت جمع رقم واپس کرنا ہوگی، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کیا پلی بارگین منسوخ ہونے سے سزا کیساتھ جرم بھی ختم ہوجائے گا؟۔ خواجہ حارث نے کہا ترمیم کی تحت جرم اور سزا دونوں ہی ختم ہوجائیں گے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پلی بارگین اعتراف جرم ہوتا ہے جس کی سزا میں عدالت پیسے واپس کرنے کی منظوری دیتی ہے، عدالت کی جانب سے دی گئی سزا قانون سازی سے کیسے ختم ہوسکتی؟۔ صدر بھی رحم کی اپیل میں سزا معاف کر سکتے ہیں جرم ختم نہیں ہوتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پلی بارگین جرم کی بنیاد ہے وہ ختم ہو جائے تو جرم کیسے برقرار رہے گا؟۔ قتل کیس میں راضی نامہ کے بعد سزا اور عدالت کا فیصلہ دونوں ختم کئے جاتے ہیں۔ قاتل کا جرم ختم ہو سکتا ہے تو بدعنوانی کے ملزم کا کیوں نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کرپشن 50 کروڑ سے کم ہو تو پلی بارگین کیساتھ مقدمہ بھی ختم ہو جائے گا، ترمیم سے لگتا ہے 49 کروڑ تک کرپشن ٹھیک اس سے زیادہ غلط ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کابینہ اور دیگر فورمز کیساتھ وزراء  اور معاونین خصوصی کو بھی استثنی دیدیا گیا ہے، اسکے ساتھ ترامیم کا اطلاق بیرون ملک اثاثوں پر بھی ہوگا، کرپشن کے ملزمان کو بچانے کیلئے ترامیم کے ذریعے پورا بندوبست کیا گیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایمنسٹی سکیم کا فائدہ اٹھانے والا عام آدمی بھی نیب ریڈار پر آ سکتا ہے؟۔ معاشرہ ایسا ہے کہ کاروباری افراد کو کئی جگہ رشوت دینا پڑتی ہے، کیا کاروباری افراد کو بزنس کرنے پر بھی سزا ملے گی؟۔ خواجہ حارث نے کہا عوامی عہدیدار کی منی لانڈرنگ میں سہولت کاری کرنے والا نیب ریڈار پر آئے گا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکیا نیب ترامیم عدالتی فیصلوں کی روشنی میں نہیں کی گئیں؟۔ جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا عدالتی فیصلوں کی غلط تشریح کرکے ترامیم کی گئی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ان ترامیم میں 500 ملین کا بینچ مارک بنا دیا گیا۔ جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اب تک کتنے مقدمات احتساب عدالتوں سے واپس آئے ہیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا 219 مقدمات واپس آ چکے ہیں شاید اب تک تعداد 280 ہوگئی ہے، اعداد و شمار مقدمے کے آغاز میں لئے گئے تھے، تمام مقدمات نیب کو واپس آرہے ہیں جنہیں کمیٹی دیکھے گی۔ اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے خواجہ حارث نے کہا ایمنسٹی سکیم میں بھی ایسا ہی تھا نام اور ر قم کسی کو بھی نہیں بتائی جا سکتی۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں ایمنسٹی سکیم بھی فراڈیولنٹ ہے؟۔ ایمنسٹی سکیم کے ذریعے پیسے کو وائٹ کرنا تو بڑے عرصے سے چل رہا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا ایسا نہیں کہہ رہا  کرپشن کی رقم کا ایشو مختلف ہوتا ہے، ایمنسٹی سکیم کے ذریعے رقم ڈکلئیر کرنے والوں کو قانون میں کچھ نہ کہنے اور نہ پوچھنے کا لکھا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاجعلی اکائونٹس میں بھی رکشے والے اور ایسے لوگوں کے اکاؤنٹس سے اربوں نکلے تھے، نئے قانون کے مطابق احتساب عدالت اور نیب  ہاتھ کھڑے کردیں گی۔ چیف جسٹس نے کہا میڈیا رپورٹس کے مطابق ان ترامیم کو گزشتہ حکومت نے شروع کیا تھا؟ باتوں سے باتیں نکل رہی ہیں، بہر حال صرف دو ماہ میں ان ترامیم کی ڈرافٹنگ کا کریڈٹ وزیر قانون کو جاتا ہے۔ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کچھ کریڈٹ سابقہ حکومت کو بھی جاتا ہے جو خود اس سارے عمل میں شامل رہی اور پھر چیلنج کر دیا۔ جس کے بعد عدالت نے وقت کی کمی کے باعث کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

مزیدخبریں