اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی استعفوں کی منظوری کے لیے دائر درخواست پر سماعت وکیل کی استدعا پر سماعت ملتوی کردی۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت سپیکر کو ہدایت دے وہ استعفوں کی منظوری کی آئینی ذمہ داری پوری کریں، عدالت سپیکر کو حکم دے کہ وہ درخواست گزاروں سمیت 112 ارکان کو بلائیں، سپیکر نے قانون پر عمل درآمد کیے بغیر 11 ارکان کے استعفے منظور کیے جو غیر آئینی اقدام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم اور قابل عزت ادارہ ہے، عدالت کو پارلیمنٹ کا احترام ہے، اس سے قبل بھی ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی، کیا پی ٹی آئی کے جو استعفے منظور ہوگئے وہ درست نہیں تھے؟، کیا یہ سیاسی جماعت کی پالیسی ہے کہ استعفے منظور نہیں ہوئے؟، ابھی تک باقیوں کے استعفے ہی منظور نہیں ہوئے، عوام نے ٹرسٹ کرکے نمائندوں کو پارلیمنٹ بھجوایا ہے، یہ عدالت سپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری نہیں کر سکتی، عدالت نے شکور شاد کیس میں بھی صرف نظرثانی کا کہا ہے، یہ سیاسی تنازعات ہیں، سیاسی جھگڑے دور کرنے کی جگہ پارلیمنٹ ہے، آپ کو دیگر ان مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ کرنا چاہیے، کیا یہ مستعفی ارکان واقعی پارلیمنٹ میں جا کر عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟، یہ ایک سیاسی تنازعہ ہے، سیاسی تنازعہ پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ ہم نے دیکھنا ہے کہ درخواست گزار کلین ہینڈز کے ساتھ عدالت آئے یا نہیں؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ درخواست گزار اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف عدالت نہیں آئے، سپیکر نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی، اس شرط پر استعفے دیے گئے تھے کہ 123 ارکان مستعفی ہوں گے، سپیکر نے تمام استعفی منظور نہیں کیے اور صرف 11 استعفے منظور کیے، ہم کہتے ہیں کہ دیے گئے استعفے مشروط تھے، اگر تمام ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے تو شرط بھی پوری نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جب تک پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفے منظور نہیں ہوتے ان کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے، ارکان اسمبلی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں یا نہیں؟ تو پی ٹی آئی کے رویے میں تضاد ہے، کیا عدالت آنے والے دس ارکان اسمبلی پی ٹی آئی پالیسی کے حق میں ہیں یا مخالف؟، یہ ان کا فرض ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی کریں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ پارلیمنٹ واپس جانا سیکنڈری ایشو ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر وہ ممبر پارلیمنٹ ہوتے ہوئے اسمبلی کارروائی کا virtually بائیکاٹ کر رہے ہیں، آپ اس سے متعلق سوچ لیں اور بیان حلفی جمع کرائیں، کیا یہ10ارکان آج بھی پارلیمنٹ واپس نہ جانے کی پالیسی کے ساتھ ہیں؟، اگر ایسا ہے تو پھر آپ کی درخواست ہم نہیں سنیں گے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ اس وقت میں ان سوالات کے جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں، ان دس ارکان کو ڈی نوٹیفائی کیا جا چکا ہے، ایک بار رکنیت بحال ہو پھر واپسی کے سوال پر جواب دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ارکان خود مانتے ہیں کہ استعفے جینوئن تھے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ ارکان اسمبلی کے استعفے جینوئن مگر مشروط تھے، ہم کہتے ہیں کہ تمام استعفے جینوئن تھے اور انہیں منظور کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمنٹ کا احترام ہے، سیاسی معاملات کو وہاں حل کریں، عدالتیں سیاسی تنازعات حل کرنے کے لیے نہیں ہیں، سیاسی تنازعات حل کرنے کے لیے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے، جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مذاق نہ بنائیں، پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں نے منتخب کیا ان کی نمائندگی کریں، صرف پولیٹکل پوائنٹ سکورنگ کیلئے درخواست پر آرڈر نہیں کر سکتے، بیان حلفی دیں واپس پارلیمنٹ جائیں گے تب ہی سنیں گے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ پارٹی کی پالیسی کیخلاف تو پارلیمنٹ نہیں جائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بس پھر معاملہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ پارلیمنٹ ارکان واپس جائیں گے یا نہیں، ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا، یہ بات پارٹی پالیسی پر منحصر ہے، اگر آپ استعفے منظوری کا آرڈر معطل کر دیں تو جا کر سپیکر سے بات کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت سیاسی ڈائیلاگ کے لیے تو آپ کو سہولت فراہم نہیں کرے گی، پٹیشنرز کہہ رہے کہ پارلیمنٹ کو نہیں مانتے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں کہا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وہ سیاسی عدم استحکام برقرار رکھنا چاہتے ہیں جو ملکی مفاد میں نہیں، عدالت اس درخواست کو کل تک ملتوی کر سکتی ہے، آپ پارلیمنٹ جا کر اپنی نیک نیتی ثابت کریں، بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ خالی قرار دی گئی نشستوں پر آگے الیکشن بھی ہونے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ لوگوں نے انہیں منتخب کیا تھا کہ پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی ہو، بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ سپیکر نے ڈکٹیشن لے کر اپنے مینڈیٹ کے خلاف گیارہ ارکان کے استعفے منظور کیے، چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جھگڑوں کو عدالت نہیں، پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے، عدالت نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف پارلیمنٹ واپس جائے گی یا نہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ مجھے آدھا گھنٹہ دے دیا جائے تو میں درخواست گزاروں سے بات کر لیتا ہوں، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ ایک گھنٹہ لیں اور اس کے بعد ہمیں آگاہ کریں اور عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا، جس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آگئے اور کہاکہ پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں پر کچھ قانونی مسائل پیش کرنا چاہتا ہوں، سپیکر قومی اسمبلی نے ہمارے استعفے منظور کرتے ہوئے قانون کو مدنظر نہیں رکھا، پی ٹی آئی کے گیارہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری سپیکر نے نہیں باہر کے لوگوں نے دی، ایک آڈیو لیک ہوئی جس میں ایاز صادق، اعظم تارڑ اور دیگر استعفے منظوری کے فیصلے کررہے، میں لیکڈ آڈیو کا ٹرانسکرپٹ پڑھنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ ان چیزوں میں مت جائیں، ایسی بات نہ کریں کہ سپیکر نے کسی کے کہنے پر استعفوں کا فیصلہ کیا، پارلیمنٹ تحلیل کرنے یا ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کیا ان کا اپنا فیصلہ تھا؟، یہ سیاسی عدم استحکام عوام یا ملک کے مفاد میں نہیں، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک کی اکانومی بھی خراب ہوئی، ایک پٹیشن پہلے مسترد ہوئی اور معاملہ سپریم کورٹ کے پاس ہے، ماضی میں نہ جائیں، سب سے زیادہ ظلم اور زیادتی عام پاکستانیوں کیساتھ ہورہا، کیا آپ کہتے ہیں کہ عدالت پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا حصہ بنے؟، پی ٹی آئی کے 10 ارکان اسمبلی کہتے ہیں ہمارے استعفے منظوری ختم کریں اور پارلیمنٹ میں بھی نہیں جائیں گے، کیا ملک میں جاری عدم استحکام پاکستانی عوام کے مفاد میں ہے؟، یہ عدالت پارلیمنٹ کی بالادستی کا احترام کرتی ہے اور کرتی رہے گی، ارکان پارلیمنٹ یہ احترام نہیں کر رہے، بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ پارلیمنٹ واپس جانے یا نا جانے کا فیصلہ سیاسی ہو گا، عدالت اس سے دور رہے، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم آپ کو اس سے متعلق کچھ نہیں کہہ رہے، پٹیشنرز کہہ رہے کہ سیاسی جماعت کی پالیسی کا احترام کرتے ہیں، پھر یہ واپس کیوں جانا چاہتے ہیں؟، وکیل نے کہاکہ ہو سکتا ہے کہ بعد میں پارٹی طے کرے کہ اسمبلیوں میں واپس جانا ہے، ہو سکتا ہے طے کریں کہ اسمبلی میں جا کر کسی بل کی مخالفت کرنی ہے، اس صورت میں ہمارے گیارہ ارکان واپس نہیں جا سکیں گے، بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ عدالت کا شکریہ مشاورت کا وقت دیا لیکن ایک قانونی نکتے پر بات کروں گا، ہمارا پوائنٹ یہ ہے کہ استعفے منظوری کا فیصلہ سپیکر نے نہیں کیا، استعفوں کی منظوری کا فیصلہ کسی آئوٹ سائڈر نے کیا ہے، ایک آڈیو موجود ہے جو ہمارا موقف درست دکھاتی ہے، آڈیو کے مطابق منظوری اس نے دی جو اس ہاؤس کیلئے اجنبی ہے، شکور شاد کے استعفے کی منظوری اسی عدالت نے معطل کی،چیف جسٹس نے کہاکہ شکور شاد اسمبلی کی کارروائی میں شریک ہو رہے تھے،شکور شاد کو پی ٹی آئی نے شوکاز بھی جاری کر رکھا تھا،آپ کا کیس شکور شاد جیسا نہیں ہے، کیا یہ دس ارکان بیان حلفی دے سکتے ہیں پارٹی پالیسی کیخلاف جائیں گے؟، وکیل نے کہاکہ بیان حلفی سے یہ حصہ نکال دیں گے پارٹی پالیسی کیخلاف جائیں گے،ہم یہ بیان حلفی دے سکتے ہیں جب باقی اسمبلی گئے ہم بھی جائیں گے،پارٹی پالیسی کو تو مانیں گے ہی اس کے ساتھ چلیں گے،درخواست گزار دس پی ٹی آئی ایم این اے پارلیمنٹ کے ممبر رہنا چاہتے ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ حلقے کی نمائندگی نہیں، سیاسی بنیادوں پر واپسی چاہتے ہیں،پٹیشنرز کہہ رہے نوٹیفکیشن معطل کریں تاکہ پارٹی پالیسی کے تحت بائیکاٹ جاری رکھ سکیں،اگر آپ اپنے حلقوں کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں تو پھر بیان حلفی دیں،آپ پہلے عدالت کو مطمئن کریں کہ درخواست گزار واقعی پارلیمنٹ میں واپسی چاہتے ہیں،پھر وہ کہہ دیں کہ دباؤ میں استعفی دیا اور غلطی مان کر اب واپسی چاہتے ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں اس کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیتے ہیں۔