اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ یہ انتخابات کا سال ہے، پولرائزیشن کو خدا کے واسطے اس ملک میں ختم کریں، ضد کو چھوڑے بغیر پولرائزیشن ختم نہیں ہوتی۔ اتحاد تو لیڈروں میں ہونا چاہیے، پولرائزیشن ختم کرنے کے لیے اتحاد کی ضرورت ہے، پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کی مانگ رہتی ہے، بیٹھ کر بات چیت کرکے ایک دوسرے کو مطمئن کریں، قومی راز عیاں نہیں ہونا چاہئے،آڈیو لیکس کی تحقیقات ہونی چاہیے یہ ایک خوش آئند امر ہے حکومت نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، مہنگائی بہت ذیادہ ہے، امید ہے کہ حکومت کی کوششوں سے اس پر قابو پا لیا جائے گا مگر اس کے لئے جلد از جلد اقدامات اٹھانا ہوں گے، صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایک قابل عمل طریقہ کار ہے جس سے انتخابی عمل پر تحفظات دور کئے جاسکتے ہیں، بیرون ملک 30 لاکھ پاکستانیوں کوووٹ کا حق ملنا چاہئے، یہ سال انتخابات کا سال ہے تاہم انتخابات کا منعقد کرانا ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ قوم کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر الیکشن کی تاریخ طے کرلیں ۔ سیاسی قیادت کے مابین اس معاملے پر چند مہینے کا اختلاف ہے جس کا حل باہمی مشاورت سے ڈھونڈا جا سکتا ہے، میڈیا کو ہراساں کرنے سے پاکستان کی جمہوریت کو نقصان پہنچے گا، چین کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں جو مستقبل میںبھی جاری رہیں گے، امریکہ پرانا تجارتی پارٹنر اور دوست ہے ، تعلقات میں بہتری کی حکومتی کاوشیں قابل تعریف ہیں، پاک امریکہ تعلقات مذید بہتر ہو سکتے ہیں ۔ پاکستان ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے، کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی حمایت جاری رکھیں گے کشمیر یوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔ دہشت گردی کا جس انداز سے پاکستان نے مقابلہ کیا دنیا میں کہیں نہیں کیا گیا۔ دہشت گردی کو شکست دینا ہماری بڑی کامیابی ہے۔ موجودہ حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات پر مبارکباد پیش کرتا ہو، اس ملک کو مستحکم اور طاقت ور بنا کر اور غریبوں کا خیال رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ سیلاب کے نقصان کو کم کرنے کے لیے ملک میں نئے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے، سیلاب میں لوگوں کی مدد ، افواج پاکستان کا کردار لائق تحسین ہے ۔
صدر مملکت نے پارلمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے کہا کہ ہر الیکشن کو چیلنج کرنے سے پاکستان میں استحکام کیسے آئے گا؟ معاشی ترقی کے لیے مستقل سیاسی استحکام ضروری ہے‘صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ جیسے جیسے سولر انرجی کی طرف جائیں تو آئندہ چند برس میں یوٹیلیٹی بھی کم ہوجائیگی۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ سیلاب کے نقصان کو کم کرنے کے لیے ملک میں نئے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے، حکومت فصلوں کی انشورنس متعارف کرائے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی جنگیں اب سائبر ورلڈ میں ہوں گی اس لیے دیکھنا ہوگا کہ اس میں ہماری تیاری کیا ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ملک میں ان لائن ایجوکیشن کے فروغ کے لیے کام کیا جانا چاہیے، تعلیم کے فروغ کے لیے مساجد کا کردار اہم بنایا جا سکتا ہے۔ این ڈی ایم اے، پاکستان ریڈ کراس، بوائر اینڈ گرلز اسکاؤٹس کو تیار ہونا چاہیے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ سوشل میڈیا بند کرنے سے مالی نقصان ہوتا ہے، فیک نیوز سے دنیا پریشان ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پانچویں سال کے آغاز پر ارکان پارلیمنٹ کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جمہوریت کو پروان چڑھتے رہنا چاہیے تاکہ ہمارا ملک مزید مضبوط ہو۔ میں اللہ تعالی کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں درپیش مسائل سے جلد نجات عطا فرمائے ۔ جس طرح صوبائی حکومتوں، وفاقی حکومت، فلاحی اداروں، این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے نے سیلاب زدگان کی مدد کی ہے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ میں مخیر حضرات اور نجی اداروں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے بڑے پیمانے پر رقومات جمع کر کے سیلاب زدگان میں تقسیم کیں، اس کے علاوہ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بھی ذکر کروں گا کہ جس کی مدد سے سیلاب متاثرین کو رقوم کی فراہمی ممکن بنائی گئی اور اب تک 24 لاکھ سے زائد سیلاب متاثرہ خاندانوں میں 61 ارب روپے سے زائد کی رقم تقسیم کی گئی ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تمام معاملات خصوصا کشمیر کے مسئلے پر گفتگو ہونی چاہیے۔ تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان ہندوتوا کی وجہ سے خود کو علیحدہ محسوس کر رہے ۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ سرکاری سطح پر اور ان کے زیر سایہ کارروائیاں ہوتی ہیں۔ اس سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ بھارتی معاشرے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ نقصان خود ہندوستان اپنے آپ کو پہنچا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا بھی انتہائی مشکور ہوں جنہوں نے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سیلاب متاثرین کا احوال جاننے کے لیے ان سے ذاتی طور پر ملاقاتیں بھی کی۔ صدر مملکت نے کہا کہ ہم امریکی کانگریس کے وفد کے بھی شکر گزار ہیں کہ وہ ممبر کانگریس شیلا جیکسن کی قیادت میں پاکستان تشریف جائے اور اس کے علاوہ غیر ملکی معززین اور پاکستان میں مقیم سفراء بھی سیلاب زدہ علاقوں میں گئے جس سے انہیں سیلاب کی تباہ کاریوں کا اندازہ لگانے میں مدد ملی، سائبر سیکورٹی اہمیت اختیار کر گئی ہیں، دفاع ، اہم تنصیبات ، فوجی و دفاعی تنصیبات کے تحفظ کے ساتھ معیشت اور اطلاعات کے شعبے میں بھی سائبر سیکورٹی کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے حالت زار کی جانب مبذول کرانے اور بین الاقوامی امدادی کوششوں کو متحرک کرنے کا ایک موثر ذریعہ ثابت ہوا۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت کے منفی اور مضر اثرات کی بہت بڑی قیمت چکانا پڑ رہی ہے ۔پاکستانی قوم نے حال ہی میں کرونا وبا کا کامیابی سے مقابلہ کیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ میں علما ، میڈیا، حکومت، عوام اور تمام اداروں کا شکریہ ادا کرتا ہو ں جنہوں نے نہایت موثر انداز میں اس وبا پر قابو پایا۔ این سی او سی اور حکومتی پالیسی کی وجہ سے اپنے پڑوسی ملک اور دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں بہت کم نقصان ہوا اور اس کامیابی پر بحیثیت ِ قوم پاکستانی خراج ِ تحسین کے مستحق ہیں ۔ ملک تقریبا 8 لاکھ کے قریب آئی ٹی گریجویٹس پیدا کرتا ہے ۔ہم اپنی افرادی قوت کو آئی ٹی کی مہارتیں سکھائے بغیر دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ پاکستان میں تربیت یافتہ اور ہنر مند انسانی وسائل کا بڑا فقدان ہے۔حکومت کو دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ ، انسانی وسائل کی تربیت کیلئے بھی اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ انسانی وسائل کی تربیت میں کوئی کسر نہ رہ جائے ۔ آن لائن اور فاصلاتی تعلیم کی اہمیت مزید ابھر کر سامنے آئی ۔ ہم اپنے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کیلئے آن لائن تعلیم و تربیت سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ یہاں میں وزیر اعظم کے ڈیجیٹل اسکلز پروگرام کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ جس سے اب تک تقریبا 24 لاکھ لوگ استفادہ کر چکے ہیں اور اس پروگرام کی مدد سے انہیں جدید آئی ٹی مہارتیں سکھائی گئی۔ ہم نے یہ شرح نمو کورونا وبا ، امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں حکومت کی تبدیلی، روس یوکرین تنازعہ سمیت دیگر مسائل کے منفی اثرات کے باوجود حاصل کی۔ ان مسائل کی وجہ سے ہماری معاشی نمو کو جھٹکا بھی لگا مگر مجھے امید ہے کہ ہم اپنے موجودہ معاشی مسائل پر قابو پالیں گے ۔ اس کیلئے ہمیں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے پر توجہ دینا ہوگی ۔ میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مزید مستحکم ہوگی۔ میڈیا اور صحافیوں کا تحفظ اور ان کی آزادی یقینی بنانا ہم سب کی اجتماعی اور آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہمارے ملک میں مثبت رفتار سے پیش رفت ہو رہی ہے ۔ صدر مملکت نے کہا کہ چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے زیادہ گہری ہے ۔ چین کے ساتھ ہمارا بہترین تعاون ہے اور یہ مستقبل میں بھی جاری رہیں گے ۔ یورپ بھی ہمارا بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جی ایس پی پلس کے حوالے سے پاکستان اور یورپی ممالک کے مابین تعاون جاری رہے گا۔۔ صدر مملکت نے کہا کہ سعودی عرب نے ہر مشکل میں ہمارا ساتھ دیا اور انہوں نے ہمیں فنڈز کی فراہمی بھی یقینی بنائی۔ پاکستان اور ترکیہ باہمی احترام، خلوص اور قریبی تعاون کی تاریخ کے حامل ہیں جس کی بنیاد مشترکہ مذہبی، ثقافتی اور لسانی میراث ہے۔میں ہندوستان کے ہوالے سے یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ ہندوستان کے ساتھ دوستی اور امن ہو، مگر یہ خواہش ہندوستان کے کشمیر میں اقدامات کی وجہ سے پروان نہیں چڑھ سکتی۔ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیاجانا چاہیے ۔ہندوستان کے ساتھ تمام معاملات خصوصا کشمیر کے مسئلے پر گفتگو ہونی چاہیے۔ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور ساتھ کھڑا رہے گا۔ قانون کو توڑ مڑورکر ہر جگہ استعمال کرنا ٹھیک نہیں۔ آپ نے دیکھا کہ توہین رسالت کے قوانین کا بھی جب غلط استعمال یا تشریح ہوتی ہے تو اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ قوانین کو ان کے صحیح سیاق و سباق کے مطابق استعمال کیا جائے ۔
اسلام آباد (چوہدری شاہد اجمل+ نا مہ نگار) صدر مملکت عارف علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکا اجلاس سے خطاب کے دوران ایوان تقریبا خالی رہا،تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ نے اپنے ہی صدر کے خطاب کا بائیکاٹ کردیا۔ایوان میں صرف پی ٹی آئی کے منحرف اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز موجود تھے، صدر مملکت نے 442ارکان کے ایوان میں صرف 14اراکین سے خطاب کیا،جب خطاب شروع ہوا تو ایوان میں33ارکان موجود تھے لیکن بعد میں حکومت میں شال جماعتوں کی طرف سے غیر اعلانیہ بائیکاٹ کے بعد ارکان کی تعداد کم ہو گر صرف14رہ گئی ،صدر کے خطاب کے دوران مشاہد حسین سید، وجہیہ قمر،جویریہ اختر، کشور زہرہ، ریاض مزاری، سائرہ بانو، نسیمہ احسان شاہ ایوان میں موجود تھے، ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ، انوار الحق کاکڑ، سرفراز بگٹی، غوث بخش مہر ایوان میں موجود تھے۔خطاب کے دوران ایوان میںموجود ارکان بھی صدر کے خطاب سے عدم دلچسپی ظاہر کرتے رہے، اسپیکر کی جانب سے اراکین کو نشستوں پر جانے کی ہدایت بھی کی جاتی رہی۔ارکان ایوان میں مختلف تولیوں کی شکل میں کھڑے گپیں لگاتے رہے ۔پاکستان مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے صدر مملکت کے خطاب کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کیا ہے۔تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ نے اپنے ہی صدر کے خطاب کا بائیکاٹ کردیا۔پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ موجودہ اسمبلی کو نہیں مانتے اس لیے بائیکاٹ کیا، انہیں نہیں مانتے۔اسپیکر کی جانب سے اراکین کو نشستوں پر جانے کی ہدایت کی گئی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے صدر پاکستان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جس اسمبلی کو آپ نے توڑ دیا تھا آج کس حیثیت سے اسی اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جمعرات کے روز سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں منعقد ہوا ۔پارلیمنٹ کا اجلاس میں تلاوت،نعت اور ترانے کے بعد جیسے ہی صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب شروع کیا تو اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد اور وزیر دفاع خواجہ آصف اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے راجہ ریاض نے کہا کہ آپ نے تو یہ اسمبلی توڑ دی تھی آج کس طرح سے اس ایوان میں خطاب کر رہے ہیں یہ خطاب غیر آئینی ہے آپ یہاں پر خطاب نہیں کر سکتے وفاقی وزیر برائے دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ آپ نے اسمبلیوں کو توڑ دیا تھا آج کس حیثیت سے یہاں خطاب کر رہے ہیں،آپ کو شرم آنی چاہیئے۔ بعد ازاں حکومت اور اپوزیشن کے اراکین ایوان سے باہر چلے گئے۔