صدر ڈاکٹر عارف علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران ایوان میں موجود ارکان کی طرف سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا اور بعد ازاں حکومت میں شامل جماعتوں اور بعض اپوزیشن ارکان کی طرف سے بھی غیر اعلانیہ بائیکاٹ سے صدر مملکت کو یہ(بقیہ صفحہ6پر)
واضح پیغام دیا گیا کہ اگر ان کی طرف سے اس ایوان کو اہمیت نہیں دی جائے گی تو یہ ایوان بھی صدر مملکت کو احترام نہیں دے گا ،صدر کے خطاب کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد نے بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر صدر عارف علوی کو ’’طعنہ‘‘دیا کہ جس اسمبلی کو آپ نے توڑ دیا تھا آج اسی اسمبلی میں کس حیثیت سے خطاب کر رہے ہیں ؟راجہ ریاض نے تو صدر کے خطاب کو ہی غیر آئنی قرار دے دیا ،صدر مملکت نے خالی نشستوں سے ہی خطاب کیا ،دوسری طرف پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے اپنے ہی صدر کے خطاب کا بائیکاٹ کیا اور ایوان میں نہ آئے ،ایوان میں احتجاج کا آغاز جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق خان نے کیا انہوں نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہو نے پر سپیکر سے احتجاج کیا اور اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے بعد ازاں مولانا عبدالاکبر چترالی ،سینیٹر ہدایت اللہ،محسن داوڑ بھی ان کے احتجاج میں شامل ہو ئے اور انہوں نے سپیکر ڈائس کے سامنے دھرنا دیا ،سینیٹر مشتاق احمد نے علی وزیر کو ’’ضمیر کا قیدی‘‘ قرار دیا،صدر نے اپنے خطاب کے اختتام پر ایوان میں موجود ارکان سے معذرت بھی کی بولے! اگر میری تقریر سے کسی کی سمع خراشی ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں۔سپیکر ارکان کو بار بار نشستوں پر بیٹھنے کی ہدایت کر تے رہے لیکن کسی نے توجہ نہ دی،صدر عارف علوی نے جب اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ملک سے ’’سیاسی پولرائزیشن ‘‘ختم کرنا ہو گی اور ضد کو چھوڑے بغیر پولرائزیشن کا خاتمہ نہیں ہو گا ،جس پر نورعالم خان بولے! تو چھوڑ دیں نہ ضد ،جب صدر نے کہا کہ انتخابات کی طرف جائیں تو نور عالم خان نے کہا کہ انتخابات اپنے وقت پر ہی ہوں گے۔