پوری دنیا کا کیاذکرکرنا۔ کم از کم پاکستان میں اب انقلاب نام کی شے کے اثرات نہیں پائے جاتے۔ ہمارے بائیں بازو والے جنہوں نے ”ایشیاءسرخ ہے“ کے نعروں سے 1970ءکی دہائی کوگرمائے رکھا۔ اب N.G.O نام کے بینکوں سے ہرماہ کی یکم تاریخ کو باقاعدہ تنخواہ ہی نہیں بلکہ گلبرک سے ہائی کورٹ جانے تک کا ٹی اے ڈی اے بھی وصول کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تو انقلاب اب نعروں کی شکل میں بھی غیر ضروری ہے۔ نہ کوئی انقلابی لٹریچر اورنہ کوئی انقلابی جلسے۔ جب سے ہمارے دوست پرویز رشید نے (ن) لیگ میں انقلاب کاباربی کیو بنا کر کامریڈوں کو کھلانا شروع کیا ہے، ان کو انقلاب اب نواز شریف کی شکل میں نظر آتا ہے۔ ہمارے A.N.P کے اکثردوست عبدالولی خاں کاایک ”قول“ بڑے فخر سے بیان کیا کرتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری جنگ پنجاب سے لڑی جائے گی۔
جب پاکستان کی سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو کرپشن اور نااہلی کے الزام میں وزارت عظمی سے برطرف کیا اور وہ نگر نگر ڈھنڈورا پیٹتے نکلے کہ ”مجھے کیوں نکال“ تو A.N.P والوں کو ولی خاں کاقول بھی یادآگیا۔کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ اب پنجاب سے شروع ہو چکی ہے۔ یہی کچھ خیالات ہمارے بائیں بازو کے ذہنی خود فریب اور دیہاڑی باز دوستوں کے بھی تھے۔ مگر جب ن لیگ نے پاکستان کے مسلح افواج کے سربراہ جنرل باجوہ کی توسیع کے حق میں اسمبلی میں ڈنکے کی چوٹ پر ووٹ دیا تو عجب بات یہ ہوئی کہ وہ پشیمان بھی نہ ہوئے۔ ہاں البتہ کپتان نے پنجاب سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد کا اعلان کردیا اورمیدان میں نکل آیا تو یہی ہمارا بایاں بازو اسٹیبلشمنٹ کا ساتھی بن کرمیاں شہباز شریف کی حکومت میں شامل ہوگیا۔ کیا پیپلز پارٹی کے بائیں بازو والے اورکیا محمودخاں اچکزئی، کیا ولی خاں کی پارٹی اورکیا ایک مفتی زادہ۔ غرضیکہ P.D.M کی حکومت میں اکثریت انہی سالخو ردہ انقلابیوں کی ہی رہی۔ ہمارے محترم استاد عابد حسن منٹو اور ان کی ”عوامی ورکر پارٹی“ بھی اسی وائرس میں مبتلا رہی۔ میاں شہباز شریف بھی ایک بار انقلابی ہوئے مگر بعد میں انہوں نے اپنا علاج کروالیا۔ن لیگ کی نقدآور خوشامد اور سابقہ PDMسے کئے گئے استفادوں کے علاوہ NGO کا چائنیز فوڈ اور ٹی اے ڈی اے اب ہمارے ملک کے بائیں بازو کا مقدر بن کران کے ساتھ چمٹ گیا ہے۔ ”ایشیاءسرخ ہے“ کے علاوہ ایک نعرہ اس کے مقابلے میں ”ایشیاءسبز ہے“ کا بھی 70کی دہائی میں بڑے ایمان افروز انداز میں لگایا جاتا تھا بلکہ جو اس کی زد میں آتا اس طالب علم کوقتل کردیا جاتا۔ اس نعرے سے ”اچھرہ“ والوں کی مراد ”اسلامی انقلاب“ ہوتا جس کی تصویر وہ کبھی بھی بنا کر پیش نہ کرسکے کیونکہ ہر انقلاب کی بنیاد معشیت ہے اور ہمارے ایک ہزارسال پرانے سکالرز میں سے آج تک کسی نے بھی نظام معشیت کواپنا موضوع نہیں بنایا۔”معتزلہ“ سے لے کر ”اشاعرہ“ اورجمیعیتہ علماءھندسے لے کر جماعت اسلامی تک کسی نے بھی اس پر مکمل اور مخصوص کام نہیں کیا۔
معشیت کا موضوع ہمہ وقت کی توجہ چاہتا ہے مگر ہمارے علماءاور یونیورسٹیوں کے پروفیسر بھی اس پر وہ توجہ نہ دے سکے جو اس موضوع کا متقاضی تھا۔ ڈھائی فیصد، نظام عشر اور وراثت کی تقسیم سے آگے کسی نے کوئی کام نہیں کیا۔ کہیں کوئی چھوٹی موٹی کتاب یا کتابچہ تو اس موضوع پر دستیاب ہوگا مگر کوئی ایسی "معاشی دستاویز" ہمارے پاس نہیں ہے جو اس معاشی چیلنج سے نمٹ سکے جو ہمیں درپیش ہے۔ ”اسلامی انقلاب“ بس ایک حسین خواب بن کررہ گیا۔ ویسے بھی اب انقلابات کے زمانے تمام ہوگئے۔ اب اصلاحات یاپھر سمجھوتوں کا زمانہ ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جس کی حکومتیں جمہوری طور پر منتخب ہیں یا روس اور چین کی طرح کیمونسٹ یا نیم سوشلسٹ حکومتیں یا پھر عرب ممالک کی طرح کی بادشاہتیں ہیں، سب کے ہاں فلاحی نظام موجود ہے۔ مغربی دنیا اچھے طرز حکومت اور مالیاتی نظام کی بدولت۔ چین، جاپان، سنگاپور اور ملائیشیا وغیرہ۔ دیانتداری اور حکمرانوں کے وسیع تر وژن کی وجہ سے اور عرب ممالک خداداد خزانوں کی بناءپر اپنے اپنے نظام معیشت کو اپنے اپنے انداز میں چلارہے ہیں مگر بنیادی نقطہ ان کا ہر آدمی کی فلاح اوراس کی ضروریات پوری کرنا ہیں جس میں وہ بہت کامیاب ہیں۔ اب ہم جیسے ممالک خاص طور پر پاکستان میں حکومتوں نے عوام دشمنی کا کردار ادا کرنا شروع کردیا اور لوگوں کو سمجھوتوں کا عادی بنا دیا۔ ہرسیاسی مذہبی، معاشرتی، تعلیمیں اور معاشی مسئلے میں یہ لوگ سمجھوتہ کرنے کے عادی ہوتے چلے گئے۔
میاں شہباز شریف کی 16ماہ کی حکومت نے عوام کو "دولے شاہ کاچوہا" بنادیا اور ان کا کشکول لے کر وہ خود دنیا بھر میں مانگنے نکل پڑے۔ بیرونی دنیا سے امداد ملنے سے زیادہ خرچہ ان کے دوروں پر ہوگیا۔ پٹرول کی قیمت ہفتہ وار بڑھتی بڑھتی تین سو ہوگئی مگر لوگوں نے بائیکاٹ کرنے کی بجائے پٹرول پمپوں کا رخ کرنا شروع کردیا کہ فوری طورپر ٹنکی بھروالیں کہیں مزید مہنگا نہ ہوجائے۔ بجلی کے ناروا بلوں سے تنگ آکر لوگوں نے خودکشیاں تک کرلیں مگر زائد بلنگ کرنے والے کسی میٹرریڈر کے خاندان کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ واپڈا کی کمپنیوں میں کام کرنے والے تمام اہلکاران کے خاندان کاان کے محلے والے اوررشتہ دار بائیکاٹ کرتے مگر دل مردہ ہوتو بائیکاٹ کہاں ہوتے ہیں۔ باورچی خانے کی اشیاءکی قیمتیں چارگنا بڑھ گئیں مگر یہاں بھی لوگوں نے سمجھوتے ہی کئے۔ شادی ہالوں میں لوگوں نے کروڑوں روپے تک لگا کر اپنی جھوٹی انا کو اپنی غربت کا خون پلایا مگر سادگی اختیار نہیں کی، سمجھوتہ کرلیا۔ آپ شام کو کسی بھی شہر کے کسی بھی ریسٹورنٹ پر چلے جائیں۔ تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوگی۔ ایک ایک سوڈشیں ہوں گی۔ لوگ اوپر تلے کھاتے ہی چلے جائیں گے اور ان کا موضوع ہوگا "مہنگائی اور" اس ملک کاکیابنے گا"۔ انقلاب کسی بھی قسم کا ہوان کے دور لد چکے۔ پاکستان کبھی بھی فلاحی ریاست نہ تھا نہ ہے اورنہ ہوگا۔ صرف سمجھوتے ہی سمجھوتے ہیں۔ لوگوں کااحتجاج تو نو مئی کا "ورلڈٹریڈ سنٹر" کھا گیا۔ اب سمجھوتے بھی اگر ختم ہوگئے توکیا ہوگا۔ میں اس سارے مسئلے کاحل بتاتا چلوں کہ ملک میں بروقت منصفانہ اورآزادانہ انتخابات کرادینے چاہیئں۔ کسی جماعت اوراس کے راہنما کو اس سے باہر نہ رکھاجائے۔ورنہ۔۔۔
٭....٭....٭