غیرقانونی مقیم افغانیوں کے انخلاءکا مثبت آغاز

افغان کمشنریٹ کے ذرائع کے مطابق پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان خاندانوں کا پاکستان سے انخلاءشروع ہو گیا ہے۔ واپس جانیوالے افغان خاندانوں میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔ قانونی کارروائی کے بعد افغان خاندانوں کو افغانستان جانے کی اجازت دی جائیگی۔ گزشتہ روز آئی جی پولیس اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان کی سربراہی میں ٹیم نے افغان سفارتخانے کے حکام سے ملاقات کی اور انہیں اس امر سے آگاہ کیا کہ حکومت پاکستان کی وضع کردہ پالیسی کے مطابق وہ تمام افغان باشندے واپس جائیں گے جو مہاجرین بن کر آئے تھے اور جن افغان مردوں کی پاکستان میں شادیاں ہوئیں‘ وہ بھی واپس جائیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ واپس بھجوائے جانیوالے افغان باشندوں میں سے اگر کوئی پاکستان آنا چاہے گا تو وہ صرف افغانستان کے پاسپورٹ اور پاکستان کے ویزے پر ہی آسکے گا۔ دریں اثناءپولیس نے اسلام آباد میں مقیم افغان باشندوں کا ڈیٹا بھی مرتب کیا ہے اور عام شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اردگرد رہائش پذیر کسی بھی غیرملکی باشندے یا مشکوک لوگوں کے بارے میں پولیس کو اطلاع کریں۔ پاکستانی حکام کی جانب سے افغانستان کے سفارتخانے کو غیرقانونی مقیم افغانیوں کی واپسی کے ٹی او آرز سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ اپنی مرضی سے واپس جانیوالے افغانیوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور جو رضاکارانہ طور پر نہیں جائیگا‘ اسے گرفتار کرکے ڈی پورٹ کیا جائیگا۔ گزشتہ روز سی ڈی اے نے اسلام آباد میں ایک غیرقانونی افغان بستی کو بھی مسمار کردیا۔ اسی طرح نارووال میں بھی غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کیخلاف کارروائی کی گئی۔ یہ افغان باشندے 9 اور 10 مئی کے پرتشدد واقعات میں ملوث پائے گئے تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا میں جرائم پیشہ افغان مہاجرین کی فہرستیں مرتب کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح شیخوپورہ میں بھی غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا ہے اور انہیں افغانستان بھجوانے کیلئے فہرستوں کی تیاری کا کام شروع کر دیا گیا۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان کی افغان مہاجرین سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور پاکستان افغان مہاجرین کی میزبانی جاری رکھے گا۔ پاکستان نے لاکھوں مہاجرین کی برسوں تک کھلے دل کے ساتھ میزبانی کی ہے۔ پاکستان صرف غیرقانونی مہاجرین کیخلاف ہے‘ جن کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت بند نہیں ہوئی‘ یہ تجارت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے جاری ہے تاہم پاکستان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا غیرقانونی استعمال روکنے کیلئے اقدامات اٹھا رہا ہے۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت 14 اگست 1947ءکو پاکستان کا قیام ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے طور پر عمل میں آیا تھا چنانچہ پاکستان میں شامل ہونیوالے تمام علاقوں میں پاکستان کے قوانین و ضوابط کی ہی پاسداری و عملداری ہونی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل 1924ءمیں افغانستان کے سرداروں نے اپنی سہولت کے تحت برطانوی وائسرائے ہند کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کیلئے افغانستان اور ہندوستان کے مابین سو سال کی مدت کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا تعین ہوا۔ اصولی طور پر تو پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی عملی طور پر یہ معاہدہ غیرمو¿ثر ہو گیا تھا جبکہ اب اس معاہدے کی میعاد کے سو سال بھی مکمل ہو چکے ہیں اس لئے اس معاہدے کی بنیاد پر پاکستان پر افغانیوں کا کوئی کلیم باقی نہیں رہا جنہوں نے پاکستان میں داخلے کیلئے مروجہ قانونی طریقہ کار ہی اختیار کرنا ہے چہ جائیکہ وہ افغان سرحد کے راستے بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے آزادانہ طور پر پاکستان میں داخل ہوں اور غیرقانونی طور پر یہاں بستیاں بھی قائم کرلیں اور غیرقانونی طور پر کاروبار بھی اختیار کرنا اور پھیلانا شروع کر دیں۔ کسی بھی غیرملکی باشندے نے بہرحال قاعدے قانون کی پابندی کے ساتھ اور پاکستان کے جاری کردہ ویزے کی میعاد کے اندر اندر ہی پاکستان میں قیام کرنا ہوتا ہے جبکہ کسی غیرملکی باشندے کو پاکستان کے شہریت ایکٹ کے مطابق ہی پاکستان کی شہریت دی جا سکتی ہے۔ 
بدقسمتی سے ماضی میں افغان باشندوں کے معاملہ میں مختلف وجوہات کے باعث نہ مروجہ پاکستانی قوانین کی پاسداری کی گئی اور افغانیوں کو پاکستانی شہری کا درجہ دیتے وقت ان پر کبھی پاکستان کا شہریت ایکٹ لاگو ہوا جس سے بادی النظر میں پاکستان کی آزادی و خودمختاری پر ہی زد پڑتی رہی۔ ہم انہی سطور میں پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ افغان باشندوں کو پاکستان میں کھل کھیلنے کا موقع 1977ءمیں جنرل ضیاءالحق نے ماورائے آئین اقدام کے تحت ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد فراہم کیا تھا جنہوں نے امریکہ اور سوویت یونین کے مابین جاری سرد جنگ میں پاکستان کو امریکی اتحادی بنالیا اور امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کیلئے پاکستان کی سرحدیں افغان مجاہدین کیلئے کھول دیں چنانچہ پاکستان کی دھرتی افغانیوں کیلئے سونا اگلنے لگی جن کے لیڈران پہلے ہی ڈیورنڈ لائن معاہدے کے ناطے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر اپنا حق جتایا کرتے تھے۔
امریکہ سوویت جنگ کے دوران افغان مجاہدین ہی نہیں‘ دوسرے افغان شہری بھی مہاجر بن کر پاکستان نقل مکانی کرتے رہے جن کی تعداد بڑھتے بڑھتے 40 لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی۔ حکومت کی نرم پالیسی کے باعث افغان مہاجرین نے مستقل بنیادوں پر پاکستان میں اپنے قدم جمانا شروع کر دیئے جنہیں اس وقت کی ضیاءحکومت نے خود عارضی کیمپ بنا کر صوبہ سرحد، اسلام آباد اور پنجاب کے بعض علاقوں میں آباد کیا۔ انکی مہمان نوازی کی اور انہیں تعلیم‘ روزگار اور کاروبار کے مواقع بھی فراہم کر دیئے۔ حد تو یہ ہے کہ ان افغان مہاجرین کو پاکستان کی شہریت کے بغیر ہی پاکستان کے قومی شناختی کارڈز کا اجراءبھی شروع کر دیا گیا جس سے پاکستان کے قوانین و ضوابط ایک تماشا بن کر رہ گئے۔ امریکہ نے تو سرد جنگ کے خاتمہ اور اسکے نتیجہ میں سویت یونین کے حصے بخرے ہونے کے بعد پاکستان اور افغان مجاہدین دونوں کے ساتھ طوطا چشمی اختیار کرلی جبکہ افغان مہاجرین مستقل طور پر پاکستان کے گلے پڑ کر اسکی معیشت کیلئے بوجھ اور یہاں امن وامان کی خرابی کا باعث بن گئے۔ انکے لائے گئے کلاشنکوف کلچر کے باعث ہی پاکستان کا امن تاراج ہوتا اور دہشت گردی کے راستے کھلتے رہے ہیں جس سے ہمارے دشمن بھارت نے بھی ہماری سلامتی کیخلاف اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے بھرپور فائدہ اٹھایا اور امریکی نائن الیون کے بعد پاکستان میں عدم استحکام اور خوف و ہراس پھیلانے کیلئے افغان سرزمین اور مزاحمت کار افغان باشندوں کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ 
یہ صورتحال ہمارے لئے کسی المیے سے کم نہیں کہ ضیاءالحق کے بعد بھی پاکستان کے کسی حکمران کو افغان باشندوں بشمول افغان مہاجرین پر پاکستان کے قوانین و ضوابط لاگو کرنے کی توفیق نہ ہوئی چنانچہ پاکستان میں مقیم یہ باشندے اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کیلئے بھی استعمال ہوتے رہے اور قتل، ڈکیتی، راہزنی، بھتہ خوری اور ناجائز قبضوں جیسے قبیح جرائم کا ارتکاب بھی شروع کر دیا۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اس پارٹی کی قیادت کے سیاسی مفادات کے تحت افغان باشندوں کو قانون میں مزید نرمی کرکے مزید سہولتیں دے دی گئیں چنانچہ جرائم پیشہ عناصر تک پاک افغان سرحد پر دندناتے نظر آنے لگے جبکہ طالبان کی کابل کے اقتدار میں واپسی کے بعد تو باقاعدہ طور پر طالبان قیادتوں کی جانب سے پاکستان کی آزادی و خودمختاری کیخلاف زہر اگلنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ہماری سکیورٹی فورسز کی کوششوں اور قربانیوں سے ختم ہونیوالی دہشت گردی نے پاکستان کی سرزمین پر پھر سر اٹھا لیا۔ 10, 9 مئی کے تخریب کاری کے واقعات میں افغان مہاجرین کا شریک ہونا بھی انہیں حکومتی سطح پر ملنے والی رعایات ہی کا شاخسانہ ہے جبکہ یہاں دہشت گردی کی 95 فیصد وارداتوں میں افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ ہی ملوث پائے گئے ہیں۔ 
اس صورتحال میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادتوں کی باہم مشاورت سے قومی اپیکس کمیٹی نے افغان مہاجرین کے معاملہ میں ایک ٹھوس پالیسی وضع کرکے انہیں 31 اکتوبر تک پاکستان سے واپس چلے جانے کی ڈیڈ لائن دی جس پر عملدرآمد کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے جو ملک کی معیشت و معاشرت کے تناظر میں یقیناً مثبت اور مستحسن اقدام ہے۔ کابل انتظامیہ کی جانب سے ایپکس کمیٹی کے اس فیصلے پر تحفظات کے اظہار اور احتجاج کا بھی یقیناً ایک پس منظر ہے جو اسکی ازل سے پاکستان دشمنی والی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اندریں حالات اب ضرورت اس امر کی ہے کہ غیرقانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کو پاکستان سے نکالنے کے فیصلہ میں نہ کسی قسم کی مفاہمت کی جائے اور نہ طالبان حکومت کی کسی مزاحمت کی پالیسی کو اسکے آڑے آنے دیا جائے۔ ہمیں بیرونی دنیا میں ریاستی اتھارٹی اور اپنی آزاد و خودمختار حیثیت کو بہرصورت تسلیم کرانا ہے۔

ای پیپر دی نیشن