آگے بڑھنا ہے تو شخصیت پرستی سے باہر نکلنا ہے!!!!

دیکھیں آج اگر ملک کو مسائل کا سامنا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی شخصیت پرستی بھی ہے ۔ چونکہ ووٹرز کی سمجھ بوجھ، سوچنے کی صلاحیت اور اہم معاملات کے حوالے سے شعور و آگاہی بہت کم ہے اس لیے ووٹرز کی اکثریت سیاسی شخصیات کے بلند و بانگ دعوو¿ں اور خیالی بیانات کے چکر میں آتے ہیں اور پھر تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے بجائے نعروں کے دھوکے میں رہتے ہوئے اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں شخصیت پرستی کے کچھ ایسے واقعات مثال کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں پاکستان کے لوگوں نے حقائق کے بجائے ایک جھوٹے کو سچ سمجھا اور چند سیاست دانوں نے معصوم اور سادہ لوح لوگوں کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ہمارے لوگوں نے اس جھوٹی سیاسی مشقوں سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ سیاسی جماعتیں پاکستان کے معصوم اور وسائل سے محروم افراد کو سیاسی شخصیت پرستی سے باہر نہیں نکلنے دینا چاہتیں ۔ اس کی تازہ مثال میاں نواز شریف کی وطن واپسی والا معاملہ ہے۔ مسلم لیگ ن جس زور و شور سے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے اس سے یوں لگتا ہے کہ شاید اس سے پہلے ان کے مختلف ادوار میں پاکستان کو بہت فائدہ ہوا ہے، پاکستان کے بنیادی مسائل حل ہوئے ہیں، پاکستان کے معاشی نظام میں بنیادی خرابیوں کو دور کیا گیا ہے، پاکستان میں زرعی انقلاب کے لیے بہت کام کیا گیا ہے، پاکستان کی امپورٹ ایکسپورٹ پالیسی کو از سر نو ترتیب دیتے ہوئے پاکستان کے مفادات کو ترجیح دی گئی ہو، پاکستان توانائی بحران کے حوالے سے کام کیا گیا ہو۔ یقین مانیے ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ گذشتہ تیس برس کے دوران اگر قومی ادارے تباہ ہوئے ہیں تو اس کی ذمہ داری مختلف سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان اس تباہی کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ آج اگر ملک میں بجلی مہنگی مل رہی ہے تو اس کی ذمہ داری میاں نواز شریف پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ دو ہزار تیرہ میں جب ان کی جماعت نے حکومت سنبھالی تو اس وقت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سروے کروائے گئے کہ بجلی کی دستیابی اہم ہے یا مہنگی بجلی سے بھی کام چل سکتا ہے، بجلی ملنی چاہیے یا نہیں ایسے سروے کروائے گئے اور معصوم و ضرورت مند لوگوں نے بجلی کی دستیابی کو اہم قرار دیا بھلے وہ مہنگی ہو۔ میاں نواز شریف صاحب نے اپنی دو ہزار تیرہ والی حکومت میں عوام کو مہنگی بجلی کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا انہوں نے پاور پروڈکشن کمپنیز کے معاہدوں کو ٹھیک کرنے کے بجائے بجلی مہنگی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور آج پاکستان کا ہر شہری اس مصیبت سے گذر رہا ہے۔ مہنگی ہوتی بجلی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے بجلی بنانے والی کمپنیوں سے معاہدے کس نے کیے، کن شرائط، اصولوں اور قواعد و ضوابط کے تحت یہ کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں۔ کیا یہ پاکستان کے مفاد میں ہے یا نہیں لیکن میاں نواز شریف کی حکومت نے اس پہلو پر کام کرنے کے بجائے بجلی کی فراہمی کے نام پر عام آدمی کی جیب پر بوجھ ڈالا اور اس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ سرکاری ادارے ان سیاسی جماعتوں کے دور حکومت میں تباہ ہو گئے۔ نہ سٹیل مل بچی، نہ پی آئی اے بچی نہ ہی پاکستان ریلویز کا کوئی حال ہے۔ ان کے علاوہ بھی جس ادارے کا نام لیں تباہی کی ایک دل ہلا دینے والی داستان ہے اور اس کی ذمہ دار تمام سیاسی جماعتیں ہیں۔ چونکہ ان دنوں میاں نواز شریف کی واپسی کا شور ہے اس لیے یہ یاد کروانا ضروری ہے کہ یہاں کسی نے دل لگا کر ملک کی خدمت نہیں کی۔ سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ اسی کی دہائی سے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں نے ملک کو متبادل سیاسی قیادت ہی نہیں دی۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے بڑے ملک کو متبادل سیاسی قیادت نہیں دینا چاہتے۔ کیا یہ پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہے۔ کیا اس ملک کے لوگوں کا حق نہیں ہے کہ جمہوریت کے حقیقی اثرات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ بہت سے لوگ ان دنوں یہ باتیں کر رہے ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندے ہی ان کے حقیقی ترجمان ہیں اور یہ عوام کا بنیادی حق ہے۔ ایسی باتیں کرنے والوں سے سوال ہے کہ کیا عام آدمی کی بنیادی ضروریات کو پورا کون کرے گا۔ کیا یہ اس ملک کے لوگوں کا حق نہیں کہ کسی بھی طرز حکومت میں ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی اہلیت موجود ہو۔ عوام کے منتخب نمائندے تو حکومت میں آنے کے بعد مالدار ہوتے رہتے ہیں اگر کسی کی حالت نہیں بدلتی تو وہ اس ملک کے غریب لوگ ہیں جن کے نام پر سیاست ہوتی ہے۔ اقتدار کا کھیل کھیلا جاتا ہے اس کھیل میں حکمران طبقہ ہر لحاظ سے فائدے میں رہتا ہے اگر کسی کو کچھ نہیں ملتا تو وہ موسموں کی سختیاں برداشت کرنے والے مختلف جماعتوں کے ووٹرز ہیں۔
اب مسلم لیگ ن کی قیادت ایک مرتبہ پھر پاکستان کے وسائل سے محروم کروڑوں افراد کو نعروں اور وعدوں کے ذریعے سبز باغ دکھا رہی ہے۔ یوں بتایا جا رہا ہے کہ جیسے ہی میاں نواز شریف آئیں گے حالات بدل جائیں گے لیکن اگر وہ نہیں آ پاتے تو پوری جماعت میں کوئی ایسا نہیں ہے جو قیادت کر سکے اور ملک کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ کیا میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں نے جو چند ماہ اس ملک پر حکومت کی ہے وہ حادثہ یا اتفاق تھا اگر ایسا ہی ہے تو کیا یہ اس ملک کے کروڑوں ووٹرز کی توہین نہیں کہ ڈنگ ٹپاو قیادت کے ذریعے کام چلایا جا رہا ہے۔ 
سابق وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق یہ سوال بار بار نہیں پوچھنا چاہیے کہ نواز شریف آ رہے ہیں یا نہیں، ان کی واپسی میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔
قانونی ماہرین نے نوازشریف کو وطن واپسی کیلئے گرین سگنل دے دیا ہے وہ اکیس اکتوبر کو آئیں گے اور مینار پاکستان پر جلسے سے خطاب کریں گے۔
 بارہ اکتوبر کو انہیں اور نوازشریف کو کئی ماہ کے لیے غائب کیا گیا، ہم نے تو جی ایچ کیو پر حملہ نہیں کیا، ڈیلز کرتے تو نوازشریف کو جیلیں نہ کاٹنا پڑتیں،ریاست بچ گئی تو سیاست بھی بچ جائے گی۔ نواز شریف کو لاہور میں استقبالیہ دیا جائے گا اورملک کے مختلف علاقوں میں ریلیوں کا انعقاد کیا جائے گا۔
ویسے جو کام ان دنوں نگراں حکومت کر رہی ہے میاں برادران اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت حکومت میں رہنے والی تمام جماعتوں کو اس حوالے سے ضرور بات کرنی چاہیے کہ انہوں نے اپنے وقتوں میں ان بنیادی اور اہم مسائل کو حل کرنے کے لیے کچھ کیا تھا یا نہیں۔۔۔
آخر میں پیر نصیر الدین نصیر کا کلام
ا±نکے اندازِ کرم ا±ن پہ وہ آنا دِل کا
ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دِل کا
نہ س±نا ا±س نے توجہ سے فسانہ دِل کا
ع±مر گ±زری ہے مگر درد نہ جانا دِل کا
ک±چھ نئی بات نہیں ح±سن پہ آنا دِل کا
مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پ±رانا دِل کا
وہ م±حبت کی ش±روعات، وہ بے تھاہ خ±وشی
دیکھ کر ا±نکو وہ پھولے نہ سمانا دِل کا
دِل لگی دِل کی لگی بن کے مِٹا دیتی ہے
روگ د±شمن کو بھی یا رب نہ لگانا دِل کا
میرے پہلو میں نہیں آپکی م±ٹھی میں نہیں
بے ٹھکانا ہے ب±ہت دِن سے ٹھکانہ دِل کا
وہ بھی اپنے نہ ہ±وئے دِل بھی گیا ہاتھوں سے
ایسے آنے سے تو بہتر ہے نہ آنا دِل کا
بے جھجک آ کے مِلو ہنس کے مِلاو¿ آنکھیں
آو¿ ہم ت±م کو سِکھاتے ہیں مِلانا دِل کا
نقش بر آب نہیں وہم نہیں خواب نہیں
آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مِٹانا دِل کا
حسرتیں خاک ہ±ئیں مِٹ گئے ارماں سارے
ل±ٹ گیا کوچ جاناں میں خزانہ دِل کا
لے چلا ہے میرے پہلو سے بصد شوق کوئی
اب تو م±مکن ہی لوٹ کے آنا دِل کا
ا±نکی محفل میں نصیر ا±نکے تبس±م کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دِل کا

ای پیپر دی نیشن