مسلم ممالک میں دہشت گردی ( سامراج اور اسکا ایجنڈا)

 حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com

 ترکی اور پاکستان میں خودکش دھماکوں کی بازگشت دور تک سنی جارہی ہے۔ ربیع الاول کے مبارک ایام میں انسانیت دشمنوں کی یہ قبیح حرکت سامراج کے اس ایجنڈے کی نشاندہی کررہی ہے جس کے تحت وہ مسلم قوت کا مزید شیرازہ بکھیرنے کے درپے ہے۔ 29 ستمبر بارہ ربیع الاول کی صبح مستونگ میں دہشت گردوں نے میلاد النبیﷺ کے جلوس کو ٹارگٹ کیا خودکش حملے کئے جس کے نتیجے میں 59 زندگیوں کا چراغ گل ہوا ،اسی روز ہنگو اور ڑوپ میں بھی دہشت گردوں نے وارداتیں کیں جس سے کئی پاکستانی جام شہادت نوش کرگئے۔ یکم اکتوبر کو دہشت گردوں نے ترک پارلیمنٹ کو نشانہ بنایا پارلیمنٹ کے مرکزی گیٹ کے قریب سیکورٹی اداروں کی فائرنگ سے دو دہشت گرد واصل جہنم ہوئے عین اسی دوران ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکہ سے اڑا لیا اس روز پارلیمنٹ کا اجلاس ہونا تھا اگر دہشت گرد اجلاس کے دوران کے مذموم حرکت کرتے یا سیکورٹی اہلکار مستعدی نہ دکھاتے تو جانی نقصان اس سے بھی زیادہ ہوسکتا تھا۔ سعودی عرب' مصر' عمان' ایران اور امریکہ سمیت مختلف ممالک نے دہشت گردی کی ان وارداتوں کی مذمت کی … پاکستان اور ترکیہ میں دہشت گردی کے واقعات اسلام دشمنی کا سبب ہیں۔ یورپ اسلام کی عظمت کے خائف ہے۔ سامراج اپنے ہدف کے لیے پاکستان' ترکی ' ایران اور سعودی عرب کو بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے، 25 کروڑ کی حامل ریاست اپنے جوہری پروگرام کے باعث دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے جبکہ ترک لیڈر شپ کی کھلی باتیں سامراج کو پسند نہیں۔ اقوام متحدہ میں طیب اردگان کے شعلہ افگن خطاب کی گونج ابھی تک محسوس کی جارہی ہے۔ اسلام مخالف قوتیں سمجھتی ہیں کہ جب تک ترکیہ' پاکستان ' ایران اور سعودی عرب کو اپنا ہم نوا نہیں بنایا جاتا اس وقت تک وہ دنیا کو ''زیر'' کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ہم اس ساری صورت حال کا معاشی واقتصادی حوالے سے جائزہ لیں تو مسلم ممالک آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سمیت عالمی مالیاتی اداروں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے نظر آئیں گے۔ عالمی ادارے اور ان کے ساہوکاروں نے قرضوں کا جال پھینک کر معاشی غلامی کا جو الاﺅ روشن کیا اس کی آگ اور جلن ہر مسلم ملک کو متاثر کررہی ہے۔
وطن عزیز میں مہنگائی اور بے روزگاری کا اڑد ہا ان ہی مالیاتی اداروں کی محبت اور ارادت کا اثر ہے!! آج ہمارے یہاں 3 کروڑ گریجویٹ بے روزگاری کا زخم چاٹ رہے ہیں ،ساڑھے 3 کروڑ بچے سکول ایجوکیشن سے محروم ہیں مایوسی اور مہنگائی کے مارے بیروزگار نوجوانوں کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا کوئی مشکل نہیں۔ خدارا حکمراں نوجوانوں سے محبت کریں انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے روزگار کے دروازے کھولیں۔ مہنگائی کا سرپٹ ڈورنے والا گھوڑا روکیں۔ عدم برداشت کے کاننے چنیں اوریہ کام اساتذہ کرام اور علماءاکرام ومشائخ عظام کو انجام دینا ہے اور یہ مشن آج سے شروع ہونا ہے…سقراط کا کہنا تھا کہ برادشت سوسائٹی کی روح ہوتی ہے سوسائٹی میں جب برادشت کم ہو جاتی ھے تو مکالمہ کم ہو جاتا ھے اور جب مکالمہ کم ہوتا ھے تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ھے سقراط نے کہا تھا کہ اختلاف دلائل اور منطق پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے یہ فن جب تک پڑھے لکھے عالم فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے اس وقت تک معاشرہ ترقی کرتا ہے لیکن جب مکالمہ یا اختلاف جاہل لوگوں کے ھاتھ آ جاتا ھے تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہو جاتا ھے سقراط نے عالم کے بارے میں کہا کہ کوئی عالم اس وقت تک عالم نہیں ہو سکتا جب تک اس میں برداشت نہ آ جائے اور جب تک وہ ھاتھ اور بات میں فرق نہ رکھے۔سقراط عظیم فلاسفر تھا اس کی باتیں دنیا نے تسلیم کر کے ترقی کی منازل طے کیں، آج وطن عزیز کے حالات دیکھ کر ٹی وی شوز میں چوکوں اور چوراہوں میں سوشل میڈیا پر جو واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں اس سے لگتا تو ایسے ہی ہے کہ ہم نے برادشت، مکالمہ کو کوئی اہمیت نہیں دی ھے اختلاف، دلائل، مکالمہ، اب کم فہم، جاہل لوگوں کے ھاتھ چڑھ چکا ہے ہر سطح پر محاذ آرائی، لڑائی، جگ ہنسائی کا ماحول ہے تو پھر پاکستان کیسے ترقی کرے گا سقراط کے مطابق ہمارے معاشرے میں انارکی پھیل چکی ہے برادشت ختم ہو چکی ہے پڑھے لکھے عالم، عالم خاموشی میں ہیں جس کی وجہ سے موجودہ دور کے عالم ھاتھ اور بات میں فرق نہیں رکھ رہے جس کی بنا پر وحشت کا ماحول بن گیا ہے آئیے اپنا اپنا محاسبہ کریں اور اپنے روئیے پر اور اس کردار پر نظر ثانی کریں :

ای پیپر دی نیشن