عیشہ پیرزادہ
Eishapirzada1@hotmail.com
سال2019 کے آخر میں جب چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کا پہلا 55 سالہ مریض سامنے آیا تب اسے ایک نمونیا کا مریض سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ ویسی ہی علامات کے مزید مریض سامنے آنے پر تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ ایک وائرس ہے جسے کویڈ-19 کا نام دیا گیا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے والے ذونوٹک وائرس نے پہلے چین اور پھر تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دنیا لاک ڈاﺅن میں بدل گئی۔معمولات زندگی کی تمام سرگرمیاں سست روی کا شکار ہو گئیں۔زندگی جینے کے نئے ضابطے متعارف ہوئے اور ویکسینیشن آنے تک کورونا وائرس سے بچاﺅ کے لیے احتیاطی تدابیر نا گزیر ہو کر رہ گئیں۔دو سال اسی کشمکش میں گزرے اور طویل انتظار کے بعد کویڈ 19 کی ویکسینیشن متعارف ہوئی۔
اب سال 2023 میں ہم سانس لے رہے ہیں اور کورونا وائرس کی ویکسینیشن کی بدولت آزادانہ طور پر امور سر انجام دے رہے ہیں۔
لیکن حال ہی میں ایک ایسے وائرس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جو کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس وائرس کا نام ہے "نیپا وائرس"۔ وائرس کی اس قسم کا شکار ہونے والے مریضوں میںاب تک اس کی شرح اموات ایک تہائی ریکارڈ کی گئی ہے۔
پاکستان کے ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش میں اس وائرس کے کئی کیسز سامنے آچکے ہیں۔خطرناک نیپا وائرس کے نئی وباء پر قابو پانے کے لیے ریاست کیرالہ میں ہزاروں دفاتر اور اسکول بند کر دیے گئے ہیں۔ کوزی کوڈ ضلع میں نو گاو¿ں کے آس پاس کئی ''کنٹینمنٹ زون“ قائم کیے گئے ہیں۔کیرالا میں مہلک وبائی وائرس نیپا سے اب تک متعدد افراد ہلاک جب کہ 700 سے زائد متاثر ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی وزارت صحت نے بھی سرکاری اسپتالوں اور مراکز صحت میں نیپا وائرس سے بچنے کےلئے ضابطہءکا رجاری کیے ہیں۔
بھارت چونکہ پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے لہذا پاکستان میں وائرس آنے کا خدشہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر جاری کر دی گئی ہیں۔ نیپا وائرس کیا ہے؟ اور اس سے بچاﺅ کیسے ممکن ہے اس پر ہم نے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف میڈیسن کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ،کنسلٹنٹ فزیشن میو ہسپتال ڈاکٹر ثومیہ اقتدار سے بات کی ہے۔ ڈاکٹر ثومیہ اقتدار 'پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کی سیکرٹری جنرل ہیں۔ اس کے علاوہ ڈینگی ایکسپرٹ ایڈوائزری کی دو سال کے لیے چیئرپرسن بھی رہ چکی ہیں۔ نیپا وائرس سے متعلق ڈاکٹر ثومیہ اقتدار نے جن اہم معلومات سے نوائے وقت کو آگاہ کیا وہ نذر قارئین ہیں۔
نوائے وقت: ہمیں بتایئے کہ نیپاوائرس کیا ہے اور اس کی ابتداءکب اور کہاں سے ہوئی؟
پروفیسر ڈاکٹر ثومیہ اقتدار: یہ ایک پرانا وائرس ہے جو سب سے پہلے 1998 اور 1999 میں ملائشیا اور سنگاپور میں پایا گیا۔ یہ ذونوٹک وائرس ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ابتداءمیں یہ وائرس پگ فارمرز میں دیکھا گیا۔
لیکن اس کے بعد یہ دیکھا گیا کہ پھل خور چمگادڑوں میں بھی یہ وائرس موجود ہے۔ چمگادڑوں کی یہ وہ قسم ہے جو پھل کھاتی ہیں اور درختوں پر الٹی لٹکی نظر آتی ہیں۔
یہ چمگادڑیں استوائی ایشیئن ممالک میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ جس میں سنگاپور، ملائشیا، انڈونیشیا، بھارت کا جنوبی حصہ شامل ہے۔ یہ چمگادڑیں جب فروٹ کھاتی ہیں تو ان کے تھوک کے ذریعے وائرس فروٹ میں داخل ہو جاتا ہے۔لہذا اگر ہم پھل اچھی طرح دھو کر نہیں کھائے تو وائرسہمارے جسم میں بھی شامل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ کتے،بھیڑ،بکریاں ان کے اندر بھی نیپا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ ذونوٹک وائرسز جانوروں سے انسانوں میں اور پھر انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ یہ وائرس جسم سے نکلنے والے مادوں ،مثلا تھوک، پیشاب، وغیرہ کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو سکتا ہے۔
نوائے وقت: نیپا وائرس کی ابتدائی علامات کیا ہیں اور مرض پیچیدہ ہونے پر کیاپیچیدگیاں ظاہر ہوتی ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر ثومیہ اقتدار: تیز بخار،جسم درد، پٹھوں میںکھچاﺅ،نزلہ،زکام،گلے میں خراش،قے وغیرہ ابتدائی علامات ہیں۔ مرض پیچیدگی کی صورت میں پلمونری سسٹم اور نیورولوجی سسٹم پر اثر انداز ہوتا ہے۔جب یہ وائرس دماغ کو متاثر کرتا ہے تو گردن توڑ بخار، جھٹکے ،غنودگی طاری ہونا اور اس کے بعد کوما علامات ہیں۔ اس کے بعد یہ وائرس پھیپھڑوں کو متاثر کرتا اور سانس کے مسائل سامنے آتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ وائرس گردے اور جسم کے باقی اورگنز پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور بالآخر مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے اس وائرس کی شرح اموات زیادہ ہے۔اگر ابتدائی علامات ظاہر ہونے پر علاج نہ کیا جائے تو مرض بے قابو ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک میں شرح اموات زیادہ ہے۔
سوال: وائرس سے بچاﺅ کے لیے احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟ کیا بہتر قوت مدافعت نیپا وائرس سے بچا سکتی ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر ثومیہ اقتدار: کوئی بھی وائرس ہو،اچھی قوت مدافعت انسان کو ہر قسم کے وائرس سے بچاتی ہے۔لیکن قوت مدافعت بھی عمر کے حساب سے کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ مثلا بچوں اور بزرگ افراد میں امیونٹی لیول کم ہوتا ہے جبکہ نوجوان افراد اچھی امیونٹی کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جو دل ،بلڈپریشر، شوگر، کینسر،ہیپاٹائٹس، ایچ آئی وی کے مریض ہوں ان میں بھی امیونٹی لیول کم ہوتا ہے۔لہٰذا
وائرس سے بچاﺅ کے لیے پھل اچھی طرح دھو کر کھائیں، ہاتھوں کو بار بار دھوئیں، ماسک لگائیں۔گھر کا بنا کھانا کھائیں۔ علامات ظاہر ہونے پر اپنے طور پر علاج نہ کریں بلکہ قریبی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
سوال: کیا وائرس کی ٹیسٹنگ سہولت اور ویکسینیشن پاکستان میں موجود ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر ثومیہ اقتدار : جی ہمارے پاس محدود پیمانے پر اس وائرس کی ٹیسٹنگ سہولت موجود ہے۔پی سی آر ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔تاہم ابھی ایسی ویکسینیشن موجود نہیں جو نیپا وائرس سے بچا سکے۔دعا ہے کہ ہمارے ہاں یہ وائرس نہ پہنچ پائے کیونکہ ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرنے والے وائرس کے پھیلاﺅ کا سبب بن سکتے ہیں۔