پی ٹی آئی قیادت کا 2014ء دھرنے کی تاریخ دہرانے کا خواب ادھورا رہ گیا

تجزیہ:  ندیم بسرا
پی ٹی آئی کی قیادت کا اسلام آباد میں 2014ء کے دھرنے کی تاریخ کو دہرانے کا خواب ادھوار  رہ گیا، جس کے بعد عوامی حلقوں میں وفاق کا ایک سافٹ امیج بننا شروع ہو گیا، جس سے بظاہر لگتا ہے کہ آئینی ترمیم کے ایشو پر چند روز قبل کمزور ہوتی وفاقی حکومت مثبت سمت میں چل پڑی ہے۔ سیاسی ماہرین یہ کہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کے تانے بانے بھی2014 ء کے دھرنے سے مل رہے ہیں، اس وقت چین کے صدر پاکستان کے دورہ پر آرہے تھے، پی ٹی آئی کو اس دھرنے کے لئے کیونکہ خفیہ مدد مل رہی تھی، پی ٹی آئی کے دھرنے کے باعث چینی صدر کا دورہ موخر ہوا، اس میں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اب شنگھائی تعاون کی تنظیم کا اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے جس میں اہم عالمی شخصیات شرکت کر رہی ہیں۔ اسی وقت اسلام آباد میں انتشار کی سیاست پھیلانے کا مقصد بھی 2014ء کا منصوبہ محسوس ہو رہا ہے اور اس پر پی ٹی آئی بیرسٹر محمد علی سیف کا یہ بیان کہ’’ بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کو بھی پی ٹی آئی کے دھرنے میں آنا چاہیے اور تقریر کرنی چاہیے‘‘ جیسے بیانات قومی سلامی کے معاملے پر سوال اٹھانے کے مترادف ہیں اور ان کے دورے پر ایسے بیانات کا دینا ان پر’’بغاوت‘‘ کا مقدمہ قائم کر سکتا ہے، اس قسم کے بیانات اور احتجاج کا مقصد ہر صورت یہی ہے کہ وہ ایسی تحریک یا دھرنے سے حکومت، عدالتوں اور اداروں پر دبائو ڈالنا چاہتی ہے جس کا مقصد بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا اور یہی منصوبہ بانی پی ٹی آئی کا بھی لگ رہا ہے کہ وہ عوامی دبائو پر جیل سے باہر نکلے مگر موجودیہ وقت میں انہیں کامیابی ملنا مشکل ہے، کیونکہ 2014ء کے دھرنے میں بانی پی ٹی آئی کو خفیہ مدد مل رہی تھی جو اب نہیںہے، اسی وجہ سے 5 اکتوبر کی ملک گیر احتجاج کی کال ناکام ہوئی ہے۔ خصوصا لاہور کی قیادت کہیں احتجاج کو لیڈ کرتے نظر نہ آئی، ورکرز کو اسلام آباد کی طرف مارچ میں مصروف رکھنے میں سب سے آگے کے پی کے کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور حسب روایت ایک بار پھر منظر سے غائب ہو گئے اور کارکنوں کو پارٹی لیڈر شپ نظر نہ آنے پر مایوسی ہوئی۔

ای پیپر دی نیشن