’کنٹینرستان‘ کے دارالحکومت کا حال

خدارا مجھ سے یہ مت پوچھیے کہ ’کتنے لوگ تھے‘۔ اتوار کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھنے کے بجائے اسے ہفتے کی رات سونے سے قبل لکھ رہا ہوں۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ جس روز یہ کالم آپ تک پہنچے گا اسلام آباد میں روزمرہ زندگی بحال ہوچکی ہوگی یا نہیں۔ لمحہ لمحہ کی خبر آپ کو دورِ حاضر میں ویسے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے مل جاتی ہے۔ میں سوشل میڈیا کے فقط ایک پلیٹ فارم سے علت کی حد تک رجوع کرنے کا عادی رہا ہوں۔ نام تھا اس کا ٹوئٹر، ان دنوں ’ایکس‘کہلاتا ہے۔ اسے اپنی اوقات سے ذرا بڑھ کر سالانہ فیس ڈالروں میں ادا کی تو ہمارے ذہن کو تخریبی خیالات سے بچانے والی سرکار مائی باپ نے اس پر پابندی لگادی۔ میں اسے بنیادی طورپر عالمی خبروں کے حوالے سے تازہ ترین جاننے کے لیے استعمال کرتاتھا۔ اب طویل وقفوں کے بعد دن میں دو تین بار میرے فون پر کھلتا ہے۔ بسااوقات میرے دیکھتے ہی دوبارہ بند بھی ہوجاتا ہے۔ جو وقت ملتا ہے اسے یاوہ گوئی کے لیے استعمال کرتا ہوں اور زیادہ تر قوم یوتھ سے گالیاں کھانے کو چند کلمات لکھتے ہوئے چسکا فروشی میں مصروف رہتا ہوں۔
اپنے قائد کے حکم پر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو جمعہ کے روز صوابی سے ایک بڑا لشکر لے کر اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنا تھا۔ ابتداً ہمیں یہ بتایا گیا کہ اسلام آباد پر دھاوا اس لیے بولا جارہا ہے کہ عزت مآب قاضی فائزعیسیٰ کو 63-Aکی نظرثانی کی اپیل کے بارے میں فیصلہ سنانے سے روکا جاسکے۔ موصوف نے مگر جمعرات کے دن ہی فیصلہ سنادیا۔ علی امین کا لشکر دریں اثناء غلیلوں سمیت دھاوا بولنے کو تیار ہوچکا تھا۔ فیصلہ لہٰذا یہ ہوا کہ اسلام آباد پہنچ کر اس وقت تک واپس نہ لوٹا جائے جب تک اڈیالہ جیل کا پھاٹک کھول کر عمران خان کو رہا نہیں کردیا جاتا۔
مارو یا مرجائو کے جذبے کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی کے ذریعے تحریک انصاف کے قائد کو رہا کروانا ممکن تھا یا نہیں، اس سوال پر بحث میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ اسلام آباد کا 1975ء سے مستقل رہائشی ہوتے ہوئے بنیادی طورپر اس کالم کے ذریعے آپ کو یہ بتانا ہے کہ جمعہ کی صبح اٹھنے کے بعد سے ہفتے کی رات ختم ہونے تک (جب یہ کالم لکھ رہا ہوں) میرا ٹیلی فون سگنل سے محروم رہا۔ دیگر لوگوں سے رابطے کا ذریعہ فقط وائی فائی کی بدولت واٹس ایپ پیغامات تھے۔ عرصہ ہوا اپنی جبلت میں گھسے رپورٹر کو اپنے تئیں دفن کربیٹھا ہوں۔ دل مگر مچلتا رہا کہ گھر سے نکلوں اور پتا چلائوں کو ڈی چوک وغیرہ کا کیا ماحول ہے۔ اس کے علاوہ اگر ممکن ہو تو ایک چکر ان ممکنہ راستوں کا بھی لگالیا جائے جہاں سے علی امین کا قافلہ اسلام آباد میں داخل ہوسکتا تھا۔ اس خوف نے مگر مفلوج بنادیا کہ اگر گھر سے نکلا اور خدانخواستہ کسی مشکل یا حادثے سے دوچار ہوا تو گھر تک اس کی اطلاع بھی نہیں پہنچاپائوں گا۔ یہ سوچتے ہوئے بہت افسوس ہوا کہ میرے ہاں ایک کے بجائے دو لینڈ لائنز تھیں ان میں سے ایک بھی رواں نہ رکھی۔ حالات معمول پر آتے ہی فیصلہ کیا ہے کہ لینڈ لائن والا فون رکھا جائے جو انٹرنیٹ کے ٹاور سے نہیں بلکہ پی ٹی سی ایل کی کیبل سے جڑا ہو۔ اگرچہ مجھے خبر نہیں کہ ٹیلی فون کا پرانا نظام اب بھی برقرار ہے یا نہیں۔
تمام تر خدشات کے باوجود جمعہ کے روز کئی بار گھر سے نکلا۔ کاوش اگرچہ یہ رہی کہ دس سے پندرہ منٹ مختلف محلوں،راستوں اور بازاروں کے گرد ذہن میں بنائے دائروں میں گھومتا رہوں۔اسلام آباد کوراولپنڈی سے ملانے والے تمام راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا تھا۔ ڈی چوک تک رسائی بھی تقریباً ناممکن بنادی گئی تھی۔ اس چوک پر ہمارے وزیر داخلہ بھی کئی بار گئے۔ لوگوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ڈی چوک ’محفوظ‘ ہاتھوں میں ہے۔ اس کے علاوہ بڑھک بارہا یہ بھی لگی کہ مبینہ طورپر ہتھیاروں سمیت اسلام آباد پر یلغار کرنے والوں کو ’عبرت کا نشان‘ بنادیا جائے گا۔
ہفتے کی صبح اٹھا تو سیل فون کے سگنل بدستور بند تھے۔ وائی فائی کی بدولت خیبرپختونخوا کے چند باعتماد رپورٹروں کے علاوہ اسلام آباد کے متحرک ساتھیوں سے رابطے میں رہا۔ گھر بیٹھنے سے اکتا کر ہفتے کی دوپہر کھانے کے بعد بیوی کو ہمراہ لے کر پشاور سے ملانے والے راستوں تک لمبی ڈرائیو کی۔ ایک بار اسے چھوڑ کر ایک دوست کے ساتھ موٹرسائیکل کے پیچھے بیٹھ کر اسلام آباد کے اس آخری مقام تک بھی چلا گیا جہاں سے علی امین گنڈاپور کے قافلے کو اسلام آباد میں داخل ہونا تھا۔ سچی بات ہے کہ مجھے ’لشکر کشی‘ کے گھبرادینے والے اشارے نہیں ملے۔ تھک ہار کر گھرلوٹا تو گہری نیند سوگیا۔
ہفتے کی شام سات بجے کے قریب آنکھ کھلی تو غسل کے بعد لیپ ٹاپ کھولا۔ یوٹیوب کے ذریعے ’خبر‘ ملی کہ علی امین گنڈاپور اسلام آباد کے ڈی چوک سے چند ہی قدم فاصلے پر واقع خیبرپختونخوا ہائوس پہنچ چکے ہیں۔یوٹیوبر کا ایک گروہ یہ تاثر دیتا رہا کہ گنڈاپور کسی ’مک مکا‘ والے بندوبست کے تحت وہاں پہنچے ہیں۔ تحریک انصاف کے حامی مگر یہ دہائی مچاتے رہے کہ انھیں وہاں محبوس رکھ کر یرغمال بنالیا گیا ہے۔ ان پر دبائو ہے کہ احتجاج ختم کرنے کا اعلان کریں۔ وہ مگر اصرار کررہے ہیں کہ یہ حکم فقط اڈیالہ کے قیدی ہی جاری کرسکتے ہیں۔ مبینہ طورپر یرغمال ہوئے علی امین کی عدم موجودگی میں بھی تحریک جاری رکھنے کا اعلان ہوا۔ اعظم سواتی کو متبادل قیادت سونپ دی گئی۔
میرے چند جی دار ساتھی آنسو گیس کی بوچھاڑ میں ڈی چوک پہنچ گئے۔ وہاں انھوں نے تحریک انصاف کے جذباتی اراکین کے ساتھ ’میدان جنگ‘ میں انٹرویو کیے۔ جینا ہوگا مرنا ہوگا، جیسے پیغام اجاگر ہوتے رہے۔ گزشتہ دو دنوں سے ’اسلامی جمہوریہ کنٹینرستان‘ میں سیل فون کے سگنلز کے بغیر محصور محسوس کرتے ہوئے بطور ایک بے بس ولاچار شہری میں یہ سوچنے کو مجبور ہوگیا کہ اگر حکومت تمام تر ریاستی قوت کے بھرپور دکھاوے کے باوجود علی امین گنڈاپور کو ’مکالمے‘ کے بہانے ہی سہی خیبرپختونخوا ہائوس لانے کو آمادہ ہوگئی تو گزشتہ دو دنوں سے اتنی بڑھکیں کیوں لگائی جارہی تھیں۔ ڈی چوک میں تحریک انصاف کے جو کارکن ڈٹے ہوئے تھے ان کی تعداد بہت متاثر کن نہیں تھی۔ وہاں ان کا پہنچ جانا اور جذبات کو تخت یا تختہ کے انداز میں بیان کرنا مگرثابت کررہا تھا کہ تمام ترپھرتیاں دکھانے کے باوجود اسلام آباد پولیس ڈی چوک کو مظاہرین سے محفوظ نہیں بناپائی۔ ان کے رویے نے بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اڈیالہ جیل میں ڈیڑھ سے زیادہ برس سے قید عمران خان جب چاہے ایک پیغام کے ذریعے ’اسلامی جمہوریہ کنٹینرستان‘کے دارالحکومت اسلام آباد میں معمول کی زندگی گزارنا ناممکن بناسکتا ہے۔ حکومتی مشینری،پولیس اور انتظامیہ نے انگریزی محاورے والا Over Killدکھایا اور عمران خان کو دنیا کے روبرو ایک دیوہیکل جن کی صورت پیش کردیا جسے ہماری ریاست وحکومت کنٹرول کر نہیں سکتی۔ فقط بڑھکیں لگاتی ہے اور کنٹینروں کے دکھاوے سے خود کو محفوظ تصور کرتی ہے۔ انجام جو بھی ہو،جمعہ اور ہفتے کے دونوں دن اڈیالہ جیل میں مقید عمران خان نے اپنے نام کروالیے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوگا اس کا میں بھی آپ کی طرح منتظر رہوں گا۔

ای پیپر دی نیشن