شنگھائی تعاون کانفر نس اور بنٹو چنٹو کی بحث

Oct 07, 2024

کامران نسیم بٹالوی

بنٹو اور چنٹو بہترین دوست ہیں بلکہ یوں کہہ لیں بھائی ہیں جن کی خوشیاں اور غم سانجھے ہیں چونکہ ایک محلے میں رہتے ہیں اس لیے دن رات صبح شام غزضیکہ ان کا ہر ماحول اور چیز سانجھی نظر اتی ہے اس کے باوجود بھی اپسے اختلاف ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں کبھی کبھار بحث مباحثہ اتنا طول پکڑ جاتا ہے کہ یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب کے یہ رشتہ ٹوٹا یا پھر یہ دونوں دوبارہ کبھی ایک دوسرے کا منہ نہیں دیکھیں گے لیکن رشتے اتنے کچے نہیں ہوتے کہ بحث پر ٹوٹ جائیں کچھ ایسا ہی ماجرہ کل پیش آیا جب میں ان کی گلی میں سے گزر رہا تھا چنٹو اور بنٹو اپنے گھروں کے پاس ایک تھڑے پر التی پالتی مارے بیٹھے بحث کے ابتدائی دور میں ہی تھے کہ مجھے انکی گفتگو دلچسپ لگی کہ میں خاموشی سے نزدیکی چبوترے پر بیٹھ کر ان کی باتوں سے محضوظ ہونے لگا یوں لگ رہا تھا کہ بغیر ہوسٹ کے کوئی لائیو ٹاک شو چل رہا ہے جس کو عمدگی سے یہ دونوں خود ہی ماڈریٹ اور مینج کر رہے ہیں دراصل موضوع گفتگو سیاسی و جمہوری تھا اگرچہ یہ دونوں بھائی نما دوست زیادہ سیاسی سمجھ بوجھ تو نہیں رکھتے ہیں مگر الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا نے ان کو نہ صرف باخبر کر دیا ہے بلکہ اتنا سیاسی بنا دیا ہے کہ مطلب کی بات کے علاوہ انہیں کچھ درست دکھائی نہیں دے رہا تھا یہاں تک کہ دلائل کے باوجود بھی میں نہ مانوں ہار والا معاملہ تھا بنٹو اور چنٹو ملک پاکستان میں 2024 کے انتخابات کے بعد ترقی کے اشاریوں اور سیاسی انارکی اور حکومت کی ناقص کارکردگی پر بحث دلچسپ مرحلہ میں داخل ہو رہی تھی بنٹو حالیہ وفاقی حکومت اور ماسوائے کے پی کے صوبہ کے دیگر تمام صوبوں بالخصوص پنجاب کی کارکردگی سے بہت خوش تھا اور وزیراعظم میاں شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی تعریفوں کے پل باندھ رہا تھا جبکہ چنٹو عمران خان کی قیادت اور گنڈا پور کی حکومت کے قصیدے پڑھنے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کو ملک انقلابی اور نجات دہندہ پارٹی قرار دے رہا تھا بنٹو کا کہنا تھا کہ ملک اب درست راستے پر چل پڑا ہے اور پاکستانی عوام کی زندگیاں آسان ہونے والی ہیں پاکستان میں اصل رجیم چینج ہو چکا ہے ملک چینی اور روسی بلاک میں بیٹھ کر پاکستان دشمن پالیسیوں اور منصوبہ بندیوں کے لیے سہولت کاری کرنے والوں کو نہ صرف نکیل ڈال چکا ہے بلکہ امریکہ اور یورپ کو مایوس بھی کر چکا ہے اور یہ ہے اصل والا ایبسولیوٹلی ناٹ اس بات کا سننا تھا کہ چنٹو کی انکھیں غصے سے لال اور چہرہ پیلا ہو گیا اور فرط جذبات میں الفاظ کی ادائی بھی ٹھیک نہ ہو پا رہی تھی یہاں تک کہ بنٹو کے منہ پر اس کے تھوک کے چند چھیٹے ان پڑے چنٹو کو چور چور کے نعرے بلند کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آ رہا تھا لیکن پھر بولا میاں برادران اور بھٹو خاندان نے باری لگا رکھی تھی ملک لوٹ کر کھا گئے ایون فیلڈ میں عالی شان گھر بنا لیا پانامہ لیکس اور دبئی لیگ میں یہ سب چور نکلے ہمارے لیڈر نے صحیح شعور دیا اس بات کے سنتے ہی بنٹو جذباتی ہونے کی بجائے مسکراتے ہوئے بولا اوئے پاگل طوطے کی طرح رٹی رٹائی باتیں نہ کر تحریک انصاف کو اپنے ہر بار اپنے ہر الزام کو تھوک کر چاٹنا پڑا اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا لندن کے اداروں نے تحقیقات کے بعد میاں برادران کو بے گناہ قرار دیا تمہاری جماعت محض انتشاری اور تخریبی پارٹی تو ہے ہی مگر اناڑی پن میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں ملک کو دیوالیہ پن کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور ائی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے اتنا قرض لے لیا جتنا 76 سالہ تاریخ میں پچھلی کسی حکومت نے نہیں لیا تھا بلکہ پنجاب کی وزارت اعلی ایک کونسلر درجے کے نالائق شخص کے سپرد کر کے پنجاب سے بدلہ لیا گیا ملک کی تاریخ میں سرکاری سطح پر رشوت اور بدعنوانی کا ریکارڈ بھی تمہاری پارٹی نے ہی توڑا جہاں بشرا بی بی اور گوگی نے تقرریوں تبادلوں کے ریٹ مقرر کر رکھے تھے ابھی بنٹو تحریک انصاف کی حکومت کی تاریخی نالائقیوں کی فہرست کے مندرجات کو مکمل بیان ہی کرنا پایا تھا کہ چنٹو دلائل کی بجائے گالیاں بکنے لگا اور پھر چور چور اور شعور شعور کا ورد کرنے لگا جواب میں بنٹو پھر بولا او بھائی چور والا بیانیہ تو کب سے اپنی موت مر چکا رہی بات شعور کی اگر لیڈر کی محبت میں اپنوں کو گالیاں دینا بڑوں سے بدتمیزی کرنا اور مخالفین کی ٹرولنگ کرنا اور بیچ چراہے میں لوگوں کی عزت تار تار کرنا شعور ہے تو حیف (لعنت)ہے ایسے شعور پر جو سیاسی و جمہوری اقدار کے برعکس کلٹ کی نمائندگی کرتا ہو۔
 چنٹو پھر بولا خان عالم اسلام کا لیڈر ہے مدینہ کی ریاست بنائے گا سب چوروں کو لٹکائے گا جس پر بنٹو نے بھی جملہ کسا اور کہا واہ ایک ثابت شدہ اور مصدقہ چور دوبارہ حکومت میں ا کر چوروں کو لٹکائے گا ہائے رے جاہلیت سن بھائی شوکت خانم چند کی رقم کو جوئے میں انویسٹ کرنے والا ایک مکمل مسلمان بن جائے تو یہی کافی ہے عالم اسلام کا لیڈر بننا تو دور کی بات اصل تو اسلامی ٹچ کا ڈرامہ تھا چنٹو سے بھی رہا نہ گیا اور بولا اوئے پٹواری جا اپنا کام کر بنٹو بولا اگر حب الوطنی میں درست سیاسی قیادت کا انتخاب پٹواری کا لقب ملتا ہے تو مجھے اعتراض نہیں کم از کم میں صرف ایک سابقہ کرکٹ کی خوبی رکھنے والے نا اہل لیڈر کی اندھی محبت سے تو محفوظ ہوں اور حقیقی شعور رکھتا ہوں مجھے ایک سوال کا جواب تو دو تمہارا لیڈر جب حکومت میں تھا تب بھی اور جب نہیں تھا تب بھی ملک دشمن پالیسیوں پر کیوں چلتا رہا اور اپنے دور حکومت میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر پلیٹ میں رکھ کر دے دیا اور عالمی فورم پر مقبوضہ کشمیر کی پرانی حیثیت بحال کرنے میں ناکام رہا ؟نہ صرف یہ بلکہ سی پیک کو ریورس گیئر لگا کر خوشی کیوں محسوس کرتا رہا؟
٭…٭…٭

مزیدخبریں