حنیف رامے نے ان دنوں ابھی پیپلز پارٹی چھوڑی نہیں تھی۔ پارٹی قائد ذو الفقار علی بھٹو کی مدح میں اس جینئس آدمی کا ایک قصیدہ سنیں۔پاکستان کی ساری عمارت دوستونوں پر قائم ہے۔ پہلا ستون 73ء کا آئین ہے اور دوسران ستون ہماری ایٹمی قوت۔ 73ء کے آئین سے ہمارے ملک کی سالمیت قائم و دائم ہے۔ جبکہ ہماری ایٹمی قوت ہمارے دفاع کی ضامن ہے۔ یہ دونوں چیزیں عطیہ خداوندی سہی لیکن قوم کو ملیں بھٹو کی جھولی سے ہیں۔ سارا زور ایک سیاسی جماعت کے مالک بھٹو کی جھولی پر ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے سربراہ فیصل آباد کے آٹھ بازاروں کے بیچ کھڑے گھنٹہ گھر کی طرح ہیں۔ یہ اپنی اپنی سیاسی جماعت کے بلا شرکت غیرے مالک ہیں۔ پھرسیاسی جماعتوں میں اپنی بقاء کیلئے بیچارے سیاسی کارکنوں کو ان ’’مالکان‘‘کیلئے قصیدہ گوئی کرنا پڑتی ہے۔
مرزا غالب کا زمانہ بادشاہت کی جاتی رْت کا زمانہ تھا۔ شاہ تھے، شاہی نہیں رہی تھی۔ مرزا غالب کے حصہ میں بہادر شاہ ظفر جیسے برائے نام بادشاہ آئے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ انہوں نے دو مصرعوں میں اپنی کیا دردناک آٹو بائیو گرافی کہی ہے:
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کیلئے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
اگر آپ کو کبھی دہلی جانا نصیب ہو تو یہ دردناک منظر دیکھنا نہ بھولئے گا۔ وہاں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی درگاہ کے پاس ایک احاطہ میں اکبر ثانی اور مرزا فخرو کی قبروں کے درمیان ایک خالی سرداوہ ہے۔ سرداوہ اس قبر کو کہتے ہیں جو کسی کے جیتے جی اس کیلئے کھود کر تیار کر لیا جائے۔ یہ جگہ بہادر شاہ ظفر نے اپنے لئے محفوظ کر رکھی تھی۔لیکن آسمان والے کا فیصلہ کچھ اور تھا۔سو اسے دلی کی خاک میں سونا نصیب نہ ہوا۔ مرزا غالب کی بے بسی دیکھئے کہ اسے اس برائے نام بادشاہ کے بھی قصیدے لکھنے پڑے۔ عید الفطر پر لکھے گئے ایک قصیدے سے پہلا شعر،کہنے والا شاعر اور سننے والا بادشاہ، دونوں جانتے تھے کہ یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے لیکن …
ہاں مہ نو!سنیں ہم اس کانام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام
میرے شہر گوجرانوالہ کی ایک علمی فضیلت بھی سن لیں۔ پروفیسر اسیر عابد نے دیوان غالب کا منظوم پنجابی ترجمہ یہیں بیٹھ کر کیا تھا۔ پھر یہ ترجمہ بھی کچھ ایسا شاندار ہے کہ مرزا غالب کے لفظوں میں احمد ندیم قاسمی جیسے دیدہ ور اسے پڑھ کر اس کی ستائش کیا کرتے تھے۔ قصیدہ کے اسی شعر کا اسیر عابد کے لفظوں میں کیا ہوا پنجابی ترجمہ بھی سن لیں۔
دس پہلی دیا چناں!کون اے ہیٹھ آسماناں
جنہوں توں پیا نیویں نیویں اج کریں سلاماں
زمانہ بدل گیا، زمین کی میر و سلطان سے بیزاری بڑھ گئی۔ شاہی ایک نئی شکل میں ڈھل گئی۔ اب بادشاہوں کے سے رنگ ڈھنگ میں سیاسی جماعتوں کے سربراہ نظر آنے لگے۔ ایک سوال ہے: کیا پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے سربراہ پرانے زمانے کے بادشاہوں کی طرح طاقتور ہیں؟ سچی بات ہے کہ پرانے وقتوں کے بادشاہوں کا اختیار اور طاقت میں ان سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ایران کا بادشاہ اپنی ریاست میں ہر طرح کی قدرت کاملہ رکھتا تھا۔ لیکن وہ اپنا دیا ہوا حکم واپس نہیں لے سکتا تھا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو ایسی کوئی مشکل درپیش نہیں۔ وہ حکم دیں، واپس لیں، دوبارہ وہی حکم دیں، اسے پھر واپس لے لیں۔ وہ ہر طرح سے با اختیار ہیں۔ پرانے بادشاہوں کا کیا کیا عجیب و غریب مسائل تھے۔ نپولین سے پہلے فرانس میں رواج تھا کہ ملکہ برسر عام بچہ جنتی تھی۔ بچے کی پیدائش کے وقت محل کے دروازے کھول دیئے جاتے تھے۔ عورتوں مردوں کا ایک ہجوم شاہی محل میں آجاتا۔ ملکہ انتوانت نے اسی عالم میں سینکڑوں لوگوں کے سامنے بچے کو جنم دیا تھا۔ سید علی عباس جلالپوری لکھتے ہیں کہ خیال یہ تھا کہ کسی کو شک نہ ہو کہ بچہ بادشاہ کا نہیں بلکہ کسی اور کا لا کر رکھ دیا گیا ہے۔دوسری جانب ڈی این اے ٹیسٹ کا اس زمانے میں کوئی بندوبست تھا ہی نہیں۔ آج کے سیاسی بادشاہ پرانے زمانے کے بادشاہوں کے ایسے مسائل پر محض ہنس ہی سکتے ہیں۔ یہ اپنی اپنی جماعتوں کے بلاشرکت غیرے مالک اور قابض ہیں۔ ان کے لورز سیاسی کارکن نہیں، اپنے اپنے پیر صاحب پگاڑا کے حْر ہیں۔ سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے‘۔ غیر ممالک میں مہنگے ہوٹلوں میں ٹھہرنا، میاں شہباز شریف کا کام ہے اور اس دیدہ دلیری اور فضول خرچی کے جواز ڈھونڈنا بیچارے ن لیگی کارکنوں کی ڈیوٹی ہے۔ ایک سیاسی لیڈر کی عوام سے محبت ہمیشہ یکطرفہ ہی رہی ہے۔ دس برس پہلے آرمی پبلک اسکول میں بچوں کی شہادت بہت دردناک قومی حادثہ تھا۔ اس قومی سانحہ پر پوری قوم اشکبار تھی۔ لیکن یہ سانحہ عمران خان کو نئی شادی رچانے سے نہ روک سکا۔ پھر انہوں نے نکاح خوانی کی اجرت میں نکاح خواں کو اپنی تحریک انصاف کی کور کمیٹی کی رکنیت بخش دی۔ کتنے بیچارے جانثار کارکن اس بخشیش پر منہ دیکھتے رہ گئے۔ ان دنوں ن لیگ کے میاں شہباز شریف سے کون پوچھ سکتا ہے۔ وہ جو آپ کا آصف زرداری کو گلیوں میں گھسیٹنے کا پروگرام تھا، اس کا کیا بنا؟ اک سیانے نے کہا تھاکہ کسی عاشق اور متعصب بندے سے کبھی بحث نہ کریں۔ پہلے کے پاس اندھا دل ہوتا ہے دوسرے کے پاس بند دماغ۔ ادھر ہر سیاسی جماعت کے پیروکار عاشق بھی ہیں اور متعصب بھی۔ ہم نے پاکستان کو جیسے تیسے کر کے آزاد کروا لیا۔ اب ضرورت ہے پاکستانی عوام کو ان سیاسی جماعتوں کے مالکان سے آزاد کرانے کی۔
کالم نگار جناب ایاز امیر ایک نئی تجویز سامنے لے آئے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ اتوار اپنے کالم ’’حضور! ہماری مانئے، صحیح نیت باندھیے‘‘ میں اپنی غیر جمہوری اور بے اختیار حکومت کا نوحہ لکھا ہے۔ انہوں نے آرمی چیف کو آئین ایک طرف رکھنے اور اپنی من مرضی کا مشورہ دیا ہے۔ وہ کسی شریف الدین پیرزادے کی تلاش پر زور دیتے ہیں۔ حالانکہ اس تلاش کی قطعاً ضرورت نہیں۔ حافظ آباد کے جاٹ اعظم نذیر تارڑ بھی آج کے شریف الدین پیرزاد ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہیں صرف ایک اشارہ چاہئے۔ ویسے سوچنے کی بات ہے کہ اگر غیر ممالک سے قرضوں کا حصول بھی آرمی چیف کی اعانت کے بغیر ممکن نہیں تو پھر ہمیں اس اتنے مہنگے جمہوری تماشے کی ضرورت ہی کیا ہے؟سنا ہے ہمارے وزیر اعظم کا اپنے غیر ملکی دوروں میں مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام رہا ہے۔ جبکہ کئی امیر ملکوں کے سربراہ اپنے سفارتخانوں میں ہی شب بسری کو ترجیح دیتے ہیں۔ اْدھر ہمارے جمہوری احوال یوں ہیں کہ ہمارے پاس غیر ملکی قرضہ ملنے کی خبر کے ساتھ ہی پارلیمانی سیکرٹریوں کے لئے مہنگی نئی گاڑیوں کی خرید کی نوید بھی جْڑی پہنچی ہے۔