فلسطین اور مسلم امہ کا کردار

پاکستانی وزیر اعظم اپنے حالیہ دورہ امریکہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف کھل کے بولے ہیں اور آج فلسطینوں کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی منایا جارہا ہے۔ پاکستان کو اندرونی و بیرونی دشت گردی کا سامنا ہے ،معاشی حالات ابتر ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان عالم اسلام کے لیے امید کی ایک کرن ہے ۔ درد دل رکھنے والے مسلمان چاہتے ہیں کہ پاکستانی سیاستدان اپنے ذاتی مقاصد و مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی روکنے اورقبلہ اول کی آزادی ایک ہو کے آواز بلند کریں ۔بامقصد تعلیمی نصاب ترتیب دیا جائے،ملک میں انصاف قائم کیا جائے۔آخری بات وہ یہ کہ!آئی ٹی،تحقیق، سائنس، کاروبار،دفاع اور معاشی شعبوں میں ترقی کیے بغیر فلسطینی مسلمانوں کی مدد کرنا ناممکن ہے۔پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کی جائز جدوجہد کی حمایت کی ہے اور اسرائیل کے قیام کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ پاکستانی حکمرانوں نے مختلف عالمی فورمز پر مسئلہ فلسطین کو بھرپور انداز میں اُٹھایا اور فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948 میں واضح موقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کا قیام ایک ناجائز اقدام ہے اور یہ فلسطینی عوام کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ فلسطین کے مسلمانوں کی حمایت کی اور اس ظلم کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر کیا۔پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کو ایک اہم سیاسی مسئلہ بنایا۔ 1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران، انہوں نے مسلم ممالک کو متحد کرنے اور فلسطینی عوام کی حمایت میں عملی اقدامات کرنے پر زور دیا۔ بھٹو نے اسرائیل کو عرب اور مسلم دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا اور فلسطینی عوام کی مزاحمت کو جائز قرار دیا۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی پاکستان نے فلسطین کی حمایت کو برقرار رکھا۔ ان کی حکومت نے فلسطینی مجاہدین کی تربیت اور حمایت کے حوالے سے متعدد اقدامات کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عالمی سطح پر بھی فلسطینی کاز کو بڑھانے کے لیے سفارتی کوششیں کیں۔ پاکستان نے ہمیشہ دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔
یہاں یہ نقطہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ دنیا کی آبادی کا 0.2 فیصد ہونے کے باوجود اسرائیل یہودی کیسے دن بدن طاقتور ہو رہے ہیں۔یہ جاننا بہت اہمیت کا حامل ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے اسرائیلی یہودیوں میں کیا خوبی ہے جو وہ اقوام متحدہ،امریکہ اور اہل مغرب کو اپنے ہر فیصلے کا ہمنوا بنا لیتے ہیں اور مسلمانوں پر قیامت برپا کیے ہوئے ہیں۔یہودیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنی قوم کے ساتھ جان و دل سے مخلص ہوتے ہیں۔وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق کاروباری سوجھ بوجھ رکھنے کی خوبی انہیں دنیا کی دولت مند ترین قوم بناتی ہے۔ تعلیم، تحقیق اور جستجو کو اپنی ترجیعات میں رکھتے ہیںاسی لیے تعداد میں بہت تھوڑے ہونے کے باوجود سائنس، معاشیات، سیاسیات اور دیگر علوم پر اِن کا کنٹرول ہے۔ آئی ٹی ،میڈیا، بینکنگ اور اہم صنعتوں پر اجارادری رکھتے ہیں اور فزکس، کیمسٹری، اکنامکس، لٹریچر، اور میڈیس کے شعبوں میں 22 فیصد نوبل انعام اسرائیلی یہودی اپنے نام کر چکے ہیں۔امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے لیکن اسرائیل امریکی حکمرانوں کو بھی اپنے قابو میں رکھتا ہے۔
فلسطین عالم اسلام کا ایک بڑا اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول، بیت المقدس، واقع ہے اور جہاں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کا سفر کیا تھا۔ فلسطین کی زمین مسلمانوں کے لیے نہ صرف مذہبی حیثیت رکھتی ہے بلکہ یہ ایک تاریخی اور ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ تاہم، آج یہ مقدس سرزمین اسرائیلی قبضے اور ظلم و جبر کی لپیٹ میں ہے، اور مسلمانوں کی اکثریت اس ظلم پر خاموش اور بے حس نظر آتی ہے۔مسلم ممالک کے عوام سراپا احتجاج ہوئے ،حکمرانوں نے احتجاج کیا لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیل دفاعی،معاشی،سیاسی اور میڈیا میںطاقتورہوتا گیا اور اپنی حدود بڑھانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف طاقت کا استعمال بھی کرنے لگا۔پچھلی ایک صدی سے فلسطینی عوام اپنی زمین اور حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔لیکن اسرائیل کی فوجی طاقت اور بین الاقوامی حمایت کے باعث فلسطینی عوام کو بے شمار مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔عزہ کو بمباری سے تباہ و برباد کرنے کے بعد اسرائیلی افواج لبنان پر چڑھائی کر چکی ہیں ۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور دوسرے مغربی ملک کھل کے اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے، اور یہ مسئلہ عالمی سطح پر ایک انسانی اور سیاسی بحران بن گیا۔اسلامی تعاون تنظیم بس رسمی سے اجلاس منعقد کرتی ہے۔
پھرکئی اسلامی ممالک کو داخلی مسائل، جیسے غربت، سیاسی عدم استحکام، اور دہشت گردی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی سطح پر فلسطین جیسے اہم مسئلے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔مسلم امہ کی بے حسی کی بڑی وجہ معاشی مفادات، داخلی تنازعات اور عالمی دباؤ ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ افسوسناک پہلو مسلم امہ کی بے حسی ہے۔ اسلامی ممالک کی اکثریت نے مسئلہ فلسطین کو صرف ایک رسمی بیان بازی تک محدود کر رکھا ہے۔مسلم امہ کا فلسطین کے مسئلے پر جو کردار ہونا چاہیے تھا، وہ اب تک نظر نہیں آیا۔ مسلمانوں میں اتحاد اور اتفاق کی کمی ہے۔ بہت سے ممالک نے اقتصادی اور سیاسی مفادات کی خاطر اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے، جو فلسطینی عوام کی جدوجہد کے لیے ایک دھچکا ہے۔ اس تمام بے حسی کے باوجود فلسطینی عوام اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے حق خود ارادیت، آزادی، اور عزت کی جنگ لڑ رہے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی مظلوم کیوں نہ ہوں۔ فلسطینیوں کی مزاحمت نے دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ ظالم کے سامنے خاموش رہنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔بطور مسلمان، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم فلسطینی عوام کی حمایت میں اپنی آواز بلند کریں۔ ہمیں اپنی حکومتوں کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ فلسطین کے مسئلے کو عالمی فورمز پر اٹھائیں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مؤثر حکمت عملی اپنائیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن