ہماری تاریخ کے پوشیدہ گوشے

 مسلم لیگ کی طرف سے کوئی ایسا لیڈر نہ تھا جو اس ناانصافی کو روک سکتا تو یوں پنجاب کا پورا نہری نظام بھارت کے پاس چلا گیا اور اپنی اس بیوقوفی کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہر چھوٹا بڑا لیڈر اپنے آپ کو پاکستان کا مالک سمجھنے لگا۔ پاکستان کے مسائل کی طرف توجہ دینے کی بجائے سب جائیداد اور عہدوں کے حصول میں پڑگئے۔ اس وقت جو سب سے بڑا ظلم ہوا وہ کشمیر میں قبائلی لشکر داخل کرنا تھا۔ اُن کے پاس نہ کپڑے تھے نہ راشن نہ مکمل ہتھیار۔ یہ لشکر بغیر کسی منصوبہ بندی اور مناسب کمانڈ کے داخل کر دیا گیا۔انہیں یہ لالچ دیا گیا کہ تم راستے میں گاؤں لوٹ کر اپنی ضروریا ت پوری کر لینا۔یہ لوگ لڑنے کی بجائے زیادہ تر لوٹ مار میں مشغول ہو گئے۔ جب بھارت نے یہ حالات دیکھے تو ماؤنٹ بیٹن جو اُس وقت بھارت کا گورنر جنرل تھا نے فوری طور پر بذریعہ جہاز سکھ رجمنٹ سری نگر میں ڈراپ کر دی ۔جب قبائلیوں کا مقابلہ بھارتی فوج سے ہوا تو یہ جتنے تیزی سے آگے گئے تھے اُس سے دوگنی تیزی سے واپس بھاگے۔ ان میں سے بعض نے دی گئی اپنی سرکاری رائفلیں بیچ کر درہ کی بنی ہوئی رائفلیں خریدلیں جو تھوڑے فائر کے بعد ٹیڑھی ہو جاتی تھیں۔ ان کے کچھ لیڈروں نے پاکستان کو بلیک میل کرنے کی کوشش بھی کی اور پچاس لاکھ روپے خرچہ ڈیمانڈ کئے۔ 
بقول اسکندر مرزا کشمیر پر اگر مناسب منصوبہ بندی سے حملہ کیا جاتا تو یہ محض دو دنوں کا معرکہ تھا۔ صرف’’ منی ہل پاس‘‘پر ہم ایک بٹالین فوج یا چند سو مجاہدین بٹھا دیتے تو بھارت کے لئے کوئی راستہ بھی نہ تھا اور سری نگر ائیرپورٹ پر صرف ایک انفنٹری بٹالین ہی کافی تھی۔مگر لیڈر بننے کے جوش میں کشمیر ہمیشہ کے لئے کھو بیٹھے۔ ایسے نظر آتا ہے کہ ہم غلط کام کرنے کے ماہر ہیں۔یاد رہے کہ یہ لشکر قائد اور وزیراعظم کی اجازت کے بغیر بھیجا گیا تھا۔
جب قائد اعظم کو پتہ چلا تو انہوں نے فوج داخل کرنے کے لئے سوچا ۔ یہاں ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ قائد کا حکم اُس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے ماننے سے انکار کر دیا تھا بلکہ حقیقت یہ تھی کہ قائد اعظم فوج اور دفاع کہ متعلق کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ سب سے پہلے قائد نے فوج بھیجنے کے لئے اسکندر مرزا سے پوچھا کیونکہ وہ اُس وقت سیکرٹری دفاع تھا اور قانونی طور پر کمانڈر انچیف جنرل گریسی سیکرٹری کے ماتحت تھا۔ اسکندر مرزا نے قائد کو بتایا کہ موجودہ حالات میں فوج بھیجنی ممکن نہیں کیونکہ پاکستان فوج اُس وقت تک غیر منظم تھی ۔ کچھ یونٹیں جو دوردراز کے علاقوں میں تعینات تھیں تاحال سفر میں تھیں اور پاکستان نہیں پہنچی تھیں دوسرا ہمارے پاس بھاری ہتھیار بالکل نہ تھے ۔ ہمارے پاس صرف چھوٹے ہتھیار تھے اور محض ایک ہفتے کا اسلحہ ۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ تاحال پاکستان میں بھارت کی دو انفنٹری بٹالینز موجود تھیں۔ ان حالات میں فوج بھیجنا خود کشی کی مترادف ہوتا۔ یہی بات اسکندر مراز ، جنرل گریسی اور فیلڈ مارشل آکنلک نے قائد کو بتائی۔
   اس عرصے میں نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ وزیر اعظم نے اسکندر مرزا کو نواب صاحب کی مدد کیلئے فوج بھیجنے کا کہا لیکن یہ بھی ممکن نہ ہوسکاکیونکہ زمینی راستہ بھارت سے گزر کر جاتا تھا لہٰذا اس راستے سے فوج بھیجناممکن تھا۔واحد راستہ بذریعہ سمندر تھا لیکن ہمارے پاس اُس وقت تک کوئی سمندری جہاز بھی نہ تھا۔ اسی دوران سردار پٹیل کی جانب سے ایک خصوصی میسنجر ایک خط لیکر آیا کہ اگر پاکستان حیدر آباد سے ہاتھ اُٹھا لے تو بھارت کشمیر دینے کے لئے تیار ہے۔ یہ معاملہ حکومت کے سامنے رکھا گیا لیکن بد قسمتی سے حکومت کوئی فیصلہ ہی نہ کر سکی۔ اُس وقت کراچی بندرگاہ پر بھارت کے دو نئے ٹیمپسٹ (Tempest)جہاز جو تاحال کریٹوں میں بند تھے موجود تھے۔ ہماری وزارتِ دفاع نے ان پر قبضہ کر لیا لیکن جناب وزیراعظم صاحب نے یہ کہہ کر جہاز بھارت کو بھجوا دیئے کہ ’’ میں نے جہاز بھیجنے کا سردار پٹیل کو وعدہ دیاتھا۔‘‘
جب پاکستان فوج کچھ منظم ہوئی تو جنرل گریسی نے کشمیر پر بذریعہ فوج قبضے کا منصوبہ بنایا۔ اس وقت بھارت کی پانچ ڈویژن فوج پونچھ میں موجود تھی جس کی سپلائی لائن صرف براستہ اکھنور تھی۔ اتنی بڑی فوج کے لئے بذریعہ ہوائی جہا ز سپلائی ممکن نہ تھی۔ جنرل گریسی نے دو ڈویژن فوج اکھنور بھیجنے کا منصوبہ بنایا ۔ اس سے بھارتی فوج کی سپلائی لائن کٹ جاتی اور بھارت قدموں میں گرنے کے لئے مجبور ہو جاتا۔ جنرل گریسی یہ منصوبہ لیکر اسکندر مرزا کے پاس پہنچا۔ اسکندر مرزا نے یہ منصوبہ حکومت کو پیش کیا لیکن پھر مسئلہ وہی آیا کہ حکومت کئی دنوں کی بحث کے باوجود کوئی فیصلہ بھی نہ کر سکی۔جنرل گریسی نے مایوس ہو کر بعد میں استعفیٰ دے دیا۔اس عرصے میں اسکندر مرزا پاکستان کا صدر منتخب ہوا لیکن کرپٹ سیاستدانوں نے ملک کا بیڑا ہی غرق کر دیا۔ تنگ آکر مرزا نے ایک ماہ کے لئے مارشل لاء لگایا تو فوج نے مرزا کو اقتدار سے محروم کر کے لندن بھیج دیا جہاں اس نے باقی زندگی کسم پُرسی کی حالت میں گزاری۔
………………… (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن