اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے وہ خالق کائنات بھی ہے اور مالک کائنات بھی وہ کسی بھی سبب کے بغیر جوچاہے نتائج پید اکرنے پرقادرہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جب سے یہ کائنات بنائی ہے یہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ضابطے اور قوانین کے مطابق چل رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہونے کے باوجود کسی پر بھی زبردستی ہدایت کو مسلط نہیں کرتا بلکہ یہ اختیار انسان کو دیا ہے کہ وہ ہدایت چاہتا ہے یا پھر گمراہی ۔اللہ تعالیٰ کو اختیاری بندگی مقصود ہے نا کہ جبری ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور(اے محبوبؐ) آپ فرما دیجیے کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے ۔( سورۃ الکہف )
سورۃ المدثر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’ یہ تو ایک یاد دہانی ہے پس جس کا جی چاہے نصیحت حاصل کرے ‘۔ قرآن پاک کی ان آیات مبارکہ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو واضح فرما دیا ہے لیکن اس بات کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا کہ وہ اس کو قبول کرے ۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انسان لازمی حق کو تسلیم کرتا اور ہدایت کے راستے پر چلتا لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار انسان کو دیا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور اگر آپ کا رب چاہتا تو زمین پر جتنے لوگ ہیں سب کے سب ایمان لے آتے ۔ تو پھر کیا آپ لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ ایمان لانے والے ہو جائیں ۔ ( سورۃ یونس )
یعنی کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو لوگوں سے ان کا اختیار واپس لے لیتا اور سب کو ایمان والا بنا دیتا لیکن اللہ تعالیٰ اس طرح کسی کا جبری ایمان لانا مطلوب نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے حق اور باطل کو واضح کر دیا ہے اب جس کا جی چاہے حق کا راستہ اختیار کرے اور جس کا جی چاہے گمراہی کے راستے پر چل پڑے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہدایت گمراہی سے الگ ہو چکی ہے ۔ ( سورۃالبقرۃ )
انسان کو صرف وہی چیز ملتی ہے جس کا وہ طالب ہوتا ہے اگر انسان ہدایت کا طالب ہو گا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور سیدھی راہ دکھائے گا اور اگر انسان ہدایت کے راستے پر نہیں چلنا چاہتا تو اللہ تعالیٰ بھی اسے جبراً ہدایت کے راستے پر نہیں چلائے گا۔ ہدایت صرف اسے ہی ملتی ہے جو اس کا طلب گار ہو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور کافر کہتے ہیں ان پر کوئی نشانی ان کے رب کی طرف سے کیوں نہ اترے تم فرمائو بے شک اللہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور اپنی راہ اس کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے ۔ (سورۃ الرعد )