چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگیا ہے جس کے لیے پاکستان اور چین کے مابین متعدد نئے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ ان معاہدوں میں زراعت و صنعت کو بالخصوص شامل کیا گیا ہے۔ معاہدوں کی رو سے حکومتی اقدامات کے ذریعے ملک کے زرعی اور صنعتی شعبے میں ترقی کے لیے معیاری پیداواری صلاحیت کو بہتر بنایا جائے گا۔ پاکستان کی انٹرنیشنل انوویشن پارک لمیٹڈ اور چائنا نیشنل سیریلز، آئلز اینڈ فوڈ سٹفس کے درمیان بیجنگ میں زرعی شعبے میں 400 ملین ڈالر تک کی مالیت کا معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کے تحت بہت سی پاکستانی مصنوعات کو عالمی مارکیٹ تک ڈیوٹی فری رسائی مل سکے گی اور پاکستان پاک چین فری ٹریڈ ایگریمینٹ کے ذریعے یورپی یونین، برطانیہ اور چین سمیت بڑی عالمی معیشتوں تک تجارتی معاہدوں کی بنیاد پر رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے لیے 200 ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں ڈیجیٹل تبدیلی اور سپلائی چین کی اصلاح کے لیے مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کیے گئے۔ چینی کمپنیوں کا پاکستان میں اپنی مصنوعات تیار کرنے کے لیے پاکستانی فرموں کے ساتھ مل کر کام کرنا ایک اہم سنگ میل ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی معاونت اور حکومت کی کاوشوں سے سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتی اور زرعی تعاون کے ذریعے مثبت نتائج حاصل ہوں گے اور معاشی ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔ اس سے قبل کان کنی، آئی ٹی، سماجی و اقتصادی، صحت و صنعت، ڈیجیٹل اور گرین کوریڈورز قائم کرنے سمیت دوسرے کئی شعبوں میں معاونت کے معاہدوں پر بھی چین دستخط کرچکا ہے۔ بے شک سی پیک منصوبہ صرف پاکستان اور چین کے مفاد کا منصوبہ نہیں رہا بلکہ پورے خطے میں ترقی کی ضمانت بنتا جا رہا ہے مگر پاکستان کے موجودہ غربت اور بے روزگاری کے تناظر میں اس امر کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی ترقی، غربت اور بے روزگاری کم کرنے میں گزشتہ گیارہ سال پر محیط سی پیک کا یہ منصوبہ اب تک کتنا معاون ثابت ہوا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چین کے تعاون سے توانائی سمیت کئی شعبوں میں کام کا آغاز ہو چکا ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت پاکستان میں بے روزگاری کا عفریت پھیلا ہوا ہے، بھوک کے ہاتھوں لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں، بجلی اور گیس کی کمیابی کا قوم کو الگ سامنا ہے۔ جب چین پاکستان کی ان شعبوں میں بے لوث معاونت کررہا ہے تو کیا وجہ ہے کہ یہاں غربت، بے روزگاری اور توانائی پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکتا۔ بادی النظر میں اس کے پیچھے ہماری اپنی انتظامی غفلت کارفرما ہو سکتی ہے جس کا فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔