پی ٹی آئی کا احتجاج، جمہوریت کی آڑ میں ملک دشمنی نہ کی جائے

پاکستان تحریک انصاف نے ہفتے کے روز اسلام آباد اور لاہور میں احتجاج کے ذریعے وفاقی اور صوبائی دارالحکومت میں کاروبارِ زندگی کو معطل کرنے کی بھرپور کوشش کی اور لاکھوں شہری اس صورتحال سے بری طرح متاثر بھی ہوئے۔ پی ٹی آئی کارکن ڈی چوک پر احتجاج کے لیے قافلوں کی صورت میں اسلام آباد پہنچنے کے لیے کوشاں رہے جس پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جگہ جگہ ٹکراؤ جاری رہا اور شدید شیلنگ کی گئی۔ 800 کارکن پنڈی کی حدود میں داخل ہوئے۔ پولیس اور پی ٹی آئی کے درمیان اسلام چائنہ چوک، جناح ایونیو اور دیگر مقامات پر تصادم جاری رہا جبکہ پی ٹی آئی کے کارکنان چائنہ چوک سے ڈی چوک کی جانب بڑھنے کے لیے کوشش تو کرتے رہے لیکن رکاوٹوں اور آنسو گیس کی وجہ سے وہ پیش قدمی نہ کرپا ئے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اپنے احتجاجی قافلے سمیت رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے بلیو ایریا اسلام آباد پہنچ گئے۔
آئی جی اسلام آباد سید علی ناصررضوی سینئر افسران اور پولیس، ایف سی اور رینجرز اہلکاروں کے ہمراہ خیبر پختونخوا ہائوس پہنچ گئے۔ اس دوران افواہ پھیل گئی کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کو حراست میں لے لیا گیاہے جس کی حکومتی ذرائع نے تردید کی لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے مسلسل یہی کہا جاتا رہا کہ گنڈا پور گرفتار ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹرگوہر علی خان علی امین گنڈا پور سے ملنے کے پی ہاؤس گئے اور وہاں ان سے مشاورت کی۔ بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ہمارا ایک دن کا احتجاج تھا، دھرنا نہیں تھا، جس طریقے سے شیلنگ کی گئی اور گولیاں چلائی گئیں، یہ غیر جمہوری ہے۔ بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایم این ایز اور چیئرمین پی ٹی آئی نہیں نکلیں گے،ہم پیچھے رہ کر احتجاج کی حمایت کریں گے۔
علاوہ ازیں، پی ٹی آئی نے ہفتے کے روز دوپہر دو بجے لاہور مینار پاکستان پر احتجاج کی کال دے رکھی تھی مگر انتظامیہ کی طرف سے ایک رات قبل ہی شہر کے داخلی راستوں پر کنٹینرز پہنچا نے سے لاہور کی قیادت مینار پاکستان پر پہنچ نہ سکی۔ پی ٹی آئی کے کارکن پولیس نفری کے باعث گلیوں اور گھروں میں جمع رہے۔ متعدد طلبہ کی طرف سے آزادی فلائی اوور پر اکٹھے ہو کر نعرے بازی کی گئی لیکن پولیس نے انھیں بھی منتشر کردیا۔دریں اثنا، پولیس نے کچھ گرفتاریاں بھی کیں۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی قیادت میں اسلام آباد میں دھاوا بولا گیا، شرپسندی میں ملوث تمام عناصر کے خلاف بلاتفریق کارروائی ہوگی۔ڈی چوک میں آئی جی اسلام آباد و آئی جی پنجاب کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے احتجاج کرنے والے 564 افراد کو گرفتار کیا ہے، گرفتار افراد میں 120 افغانی شہری بھی شامل ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے 11 پولیس اہلکاروں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔خیبرپختونخوا پولیس کے اہلکار سادہ لباس میں تھے اور ان سے آنسو گیس کے شیل، ماسک اور ربر کی گولیاں برآمد ہوئی ہیں۔ صبح پنجاب پولیس پر فائرنگ کی گئی، مظاہرین میں تربیتی یافتہ عسکریت پسند بھی تھے، مظاہرین کے پتھراؤ سے اسلام آباد پولیس کے 31 اہلکار اور پنجاب پولیس کے 75 اہلکار زخمی ہوئے۔ 
اس دوران احتجاج کے علاوہ سب سے اہم موضوع خیبر پختونخوا کے وزیر بیرسٹر سیف کا ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر دیا گیا وہ انٹرویو بنا رہا جس میں انھوں نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو اسلام آباد میں اپنے احتجاجی جلسے سے خطاب کی دعوت دی۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے شور مچا تو پی ٹی آئی کی قیادت کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ بیرسٹر سیف کا بیان ملک دشمنی کے ضمن میں آتا ہے، لہٰذا چیئرمین پی ٹی آئی اس حوالے سے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے حوالے سے بیرسٹر سیف کا بیان سیاق و سبا ق سے ہٹ کر لیا گیا۔ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی بھارت سے متعلق پالیسی وہی ہے جو پاکستان کی پالیسی ہے۔
یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس سے پہلے ایک طرف پی ٹی آئی کی جانب سے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی مدد سے احتجاج کر کے حالات خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسری جانب اس کے کچھ رہنما ایسے بیانات دے رہے ہیں جو صاف طور پر ملک دشمنی پر مبنی ہیں۔ سیاست اور جمہوریت کی آڑ میں کسی کو بھی ملک دشمنی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان خود ایک قانون دان ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کو ایسے عناصر سے پاک کرنے پر توجہ دیں جن کی وجہ سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ یہ جماعت پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کررہی ہے۔ احتجاج جمہوری حق ضرور ہے لیکن ایک صوبے کے سرکاری وسائل استعمال کر کے دوسرے صوبے یا وفاقی دارالحکومت میں انتشار پھیلانے کی کوششوں کے نتیجے میں ایسے مسائل پیدا ہوں گے جو پی ٹی آئی کی قیادت کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن