سیاست کے بڑے رنگ ہوتے ہیں!! نظریہ کے نام پر اقتدار کی سیاست، آئین اور جمہوریت کے لئے پرو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست،ذات کی سیاست،خاندان کی سیاست، جمہوریت کے لبادے میں چھپی مفادات کی سیاست، سستی شہرت کی سیاست وغیرہ … سیاست میں دوستی دشمنی مستقل نہیں ہوتی،آج کا دوست کل کا دشمن،کل کا دوست آج کا دشمن، جیسے بانی پی ٹی آئی نے 2002 میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دیا تھا۔ 2000 میں پرویز مشرف کے صدارتی ریفرڈم میں کھلم حمایت کی اور ووٹ دیا۔ جس میں پرویزمشرف نے عمران خان کو ملک کا بڑا عہدہ دینے کا لالچ دیا۔ صدارتی ریفرنڈم کے حمایت کے ایجنڈے پر منعقدہ بانی چئیرمین کی زیر صدارت مشاورتی اجلاس ہوا۔ جس میں بندہ ناچیز بحیثیت جنرل سیکرٹری اسلام آباد با لحاظ عہدہ مرکزی رکن مجلس عاملہ سخت مخالفت کی تھی۔ اس وقت کے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل معراج محمد خان نے بھی صدارتی ریفرنڈم کی حمایت کو باعث شرم سیاسی قدم قرار دے کر مخالفت کی تھی، لیکن ہوس اقتدار میں پرویزمشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی حمایت میں تحریک انصاف سے ملک کے طول و عرض میں بڑے بڑے جلسے کروائے گئے۔ پھر پرویزمشرف کا موڈ بدل گیا اور گجرات کے سیاسی گھرانے کے چشم و چراغوں کو قریب کر لیا۔ جس پر عمران خان کی دوستی دشمنی میں بدل گئی۔ اسی طرح نواز شریف فوج کی مدد سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز ہوئے۔ پھر ایک دور آیا پھر بطور وزیر اعظم جی۔ روڈ سے مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عذت دو کی گردان پڑھتے پڑھتے لاہور تشریف لے گئے۔ صدر زرداری نے بھی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی۔ پھر تین سال ملک سے باہر گزارے۔ لیکن چونکہ ہم سیکھنا نہیں چاہتے اس لئے سیاسی اختلافات کے باوجود اجتماعی قومی ، عوامی، آئینی مسائل پر گرئینڈ ڈائیلاک نہیں کرتے۔ پھر بدنام کرتے پھرتے ہیں کہ فوج کرپٹ ہے۔ چوکیدار چور بن گیا ہے، نیوٹررل تو جانور ہوتے ہیں۔ یہ تک نہیں سوچتے جسے کرپٹ کہہ رہے ہیں وہ جغرافیائی سرحدوں کی محافظ بھی ہے۔ جب ملک سیلاب یا دیگر گھمبیر آفات میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہی فوج عوام کی مدد کو پہنتی ہے۔آرٹیکل 245 کے تحت امن و امان کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔ ادارہ کرپٹ ہو تو اسے ٹیھک کیا جاتا ہے۔ ن بدنام نہیں کیا جاتا ہے۔ فوج ہمارا مضبود ریاستی ادارہ ہے۔ اسے ملک کے سیاسی ، سفارتی اور آئینی حقوق میں مداخلت کا راستہ دینے والے کون ہیں؟ ہم اپنے گریباں میں جھانک کر اپنی غلطیوں کا ازالہ اور درست کرنے کے لئے نہ تیار ہیں۔ نہ ہم اقتدار کے لئے فوج سے دور ہونا چاہتے ہیں۔ فوج ایک پیشہ وارانہ ریاستی ادارہ ہے۔ جو حکومت وقت کے زیر انتظام تنخواہ پر خدمات سرانجام دیتا ہے۔اداروں کے ورکنگ ایس او پیز ہوتے ہیں۔ جنکو پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو ایک ٹیبل پر بیٹھ کر حل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے جذبات پارٹی اور لیڈر کی محبت میں ذرا سخت ہو جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں حصول اقتدار کے لئے فوج کو مداخلت کا راستہ اور جواز فراہم کرتی ہیں۔ ایک دوسرے کی مخالفت میں ملکی مفاد میں ڈائیلاگ نہ کرنا کونسی جمعوریت ہے۔ سب پاکستان اور عوام کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان اور عوام سے زیادہ تشدد کی باتیں اور عمل کیا جاتا ہے۔ صوبائی حکومتیں احتجاج کے لئے سرکاری خرچے اور وسائل کا استعمال کرتی ہے۔ وفاقی حکومت عوام کے پیسے سے رکاوٹیں کھڑی کردیتی ہے۔ دونوں طرف سے اختیار کا ناجائز استعمال سب سے بڑی کرپشن ہے۔ملک میں سیاسی اور آئینی خانہ جنگی کا قابل عمل حل تلاش کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ سیاسی جماعتوں پر خاندانوں اور شخصیات کا راج ہے۔ کسی سیاسی جماعت کے اندر جمعوریت اور احتساب کا کوئی نظام نہیں۔ پارٹی قیادت اولادوں کو منتقل کر دی جاتی ہے۔ جو جماعت بنا لے جب تک وہ مر نہ جائے سربراہ رہتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کمیںجمہوریت کی آڑ میں چھپا آمرانہ رویہ ہمیں آگے نہیں بڑھنے دے رہا۔ مجال ہے پارٹی سربراہ کے تعنیاتی کی مدت کی کوئی بات کرے۔ میں سمجھتا ہوں جب تک سیاسی جماعتوں کے اندر جمعوریت اور احتساب نہیں آتا۔ ملک کے حالات میں بہتری دیوانے کے خواب کے مترادف ہے۔ خاندان اور ذات کی قید میں الجھیجمہوریت اصل میں آدھا تیتر آدھا بٹیر ہے۔ جب تک سیاسی کارکنان اور عوام آدھا تیتر آدھا بٹیر کے چنگل سے آزاد نہیں ہوجاتے تشدد کی سیاست ختم نہیں ہوگی۔ عدم تشدد کی سیاست جمہوریت کی روح ہے۔ جس جسم میں روح ہی نہ ہو اسے جو کہا جاسکتا ہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔مجھے نہیں پتہ جو میں کہنے کی کوشش کر رہا ہوں وہ کس کو کیسے سمجھ آرہا ہے۔ البتہ دنیا اختلائے رائے پر قائم ہے۔ لیکن ایک نظام اللہ کا ہے۔ اللہ کا نظام مکمل اور انسان کا نظام خامیوں بھرا ہے۔ اللہ کا نظام سے روشنی لے کر حکمرانی کرنے والوں کو اسلامی تاریخ میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ جو کہتے تھے کرتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ تھے۔ اللہ جب کسی انسان کو کوئی اختیار دیتا ہے۔ اللہ اس سے کوئی کام لینا چاہتا ہے۔ اختیار ملنے پر اللہ کو جوابدہی خوف خدا پیدا کر دیتی ہے۔ خوف خدا ختم ہو جائے تو دنیا پرست اختیار کا غلط استعمال کر کے ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ ہمیں کافی حد تک علم ہے کہ مسلمانوں کے دور حکمرانی کے عروج اور زوال کی وجوہات کیا ہیں؟،کن کن حکمرانی کے اصولوں پر ہم نے دنیا میں مقام پایا۔ پھر ان اصول حکمرانی کو چھوڑ کر دنیا میں کیسے خوار ہوئے۔ اب وقت آگیا ہم اپنی اصل کی طرف لوٹیں۔ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کریں۔ اپنے اپنے کردار کا ازسر نو جائزہ لیں۔اس طرز عمل کو اپنانے کی کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ بس اپنی ذات کو درستگی کی ضرورت ہے۔ ذات کی درستگی وہ بنیاد ہے جس پر چل کر ملک و قوم سرخرو ہو جاتے ہیں۔4 اور 5 اکتوبر 2024 کو پاکستان تحریک انصاف نجانے کس ایجنڈے پر اسلام آباد کے ڈی چوک کی طرف دوڑی۔ اسی روز فوج کو آرٹیکل 45 کے تحت امن و امان کے لئے اختیارات منتقل کئے گئے۔ تب اداروں اور عوام کے درمیان شیلنگ اور پتھراو کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ کے پی کے وزیر اعلء علی امین گنڈا پور احتجاجی قافلہ چھوڑ کر پتہ کس کے کہنے پر کیسے کے پی ہاوس اسلام آباد پہنچ گئے۔ پھر چھ سات گھنٹوں تک متضاد بیانات کی زد میں غائب رہا، میں 5 اکتوبر کی شب لکھ رہا ہوں، شام چھ بجے سے ابتک کسی کو کچھ پتہ نہیں علی امین گنڈا پور کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ 85 پولیس اہل کاروں کے زخمی ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ نے 25 اکتوبر تک گنڈا پور کو ضمانت دے رکھی تھی،اسلام آباد شہر اور موبائل سروس بند ہونے سے عوام پر ذہنی تشدد کیا جارہا ہے۔ نائب وزیر اعظم اور وفاقی وزراء پی ٹی آئی کے احتجاج کے لئے وقت کے چناو کو شنگھائی تنظیم کانفرنس کے خلاف ملک دشمنی کہہ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے ترجمان بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر ڈی چوک پر مظاہرین سے خطاب کی دعوت دے رہے ہیں۔تحریک انصاف کے برائے نام حادثاتی چئیرمین بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی کے کارکنوں پر براہ راست فائرنگ کا بیان کر رہے ہیں۔ سیکیورٹی ادارے انکے بیان کی تردید کر رہے ہیں۔ اس سیاسی اور آئینی بحران سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ تشدد کی سیاست کو ہوا دی جارہی ہے۔ کوئی منطق اور دلیل سے عدم تشدد کی سیاست پر بات نہیں کر رہا۔ ہر کوئی اپنے مفادات کی عینک سے دیکھ اور بات کر رہا ہے۔ کچھ عدالتی فیصلوں نے عدلیہ کو متنازعہ کر رکھا ہے۔ آئینی عدالت کے قیام پر حکومت بغیر ہوم ورک کے فی الوقت ناکام ہوئی ہے۔ 2014 میں ڈی چوک میں 126 دھرنے کے دوران آرمی چیف سے ملاقات کے بلاوے پر عمران خان کی دیدنی خوشی ناقابل فراموش تھی۔ تب چینی وزیر اعظم کو احتجاج کر کے روکا کیا تھا۔ اب ملائشیاکے وزیر اعظم کے دورے اور شنکھائی تنظیم کی کانفرنس کے موقع پر پھر احتجاج کیا جارہا ہے۔ اس اشتعال انگیزی کے سیاسی وائرس نے تباہی پھیلا رکھی ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف کے دعوے اور زمینی حقائق مختلف ہیں۔ملکی صورتحال تشویشناک ہے۔ سیاسی کارکن اور عام آدمی تمام تر ملکی صورتحال کو قومی مفاد کی عینک سے دیکھے تو چیزیں اور عزائم مختلف نظر آئیں گے۔ سیاسی،حکومتی اور ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود وقیود میں رہ کر کام کریں کو ملک ترقی اور خوشحالی کیطرف بڑھے گا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین