قنوطیت کے سائے

Oct 07, 2024

منظرالحق … دانش

مسلمانوں میں آپس کی مخاصمت صدیوں سے چلی آ رہی ہے،دوسرے مذاہب کے پیروکار اس صورتحال کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور تیلی لگا کر کھیل تماشہ دیکھتے ہیں۔جس قوم کی سوچ مسلکی ہو،وہاں شر و فساد کے شرارے چند لمحوں میں آگ بھڑکا دیتے ہیں اور مسلماں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے دکھائی  دیتے ہیں۔یہ سلسلہ خلفائے راشدین کے زمانے سے شروع ہوا،معاویہ و یزید نے امام حسین کی شہادت کے ساتھ اسے انتہا تک پہنچایا اور ہم عفو و درگزر کی حدیں پار کر کے،بغض و عداوت کی بھٹی کو اپنا مسکن بنا بیٹھے۔قنوطیت مسلمانوں کی سرشت میں کب،کہاں اور کیسے شامل ہوئے،اس کا جواب دینا ذرا مشکل ہے اور نبی کریمﷺ سے اسے نتھی کیا جا سکتا ہے۔خارجی سوچ نے جنم لیا،عفو درگزر کو دفن کر دیا گیا اور شمشیر کے زور سے اپنا مدعا منوایا جانے لگا۔ ہم اس جال کے چنگل میں بری طرح پھنس گئے،اس جنونی کیفیت کے سیلاب کو صوفیانہ طرز زندگی نے پیچھے دھکیلنے کی سعی کی اور اولیاء نے اپنے اوصاف کا جادو جگا کر،ان کوششوں کو دوام بخشا۔یہ دراڑ عمیق و وسیع ہوتی چلی گء،اس کے ایک جانب جارحانہ جنگجو و متعصب افراد اپنا جھنڈا لہرانے لگے اور دوسری سمت پیار و محبت اور یگانت کا درس دینے والے صوفی اکھٹا ہو گئے،پر جیسے دریا کے کنارے آپس میں نہیں ملتے،اسی طرح اس خلیج کو پاٹا نہ جا سکا۔فاصلے بڑھتے رہے،دونوں فریق آمنے سامنے صف آراء ہو گئے اور زمانے قدیم کی جنگاری نے ایک بھڑکتی آگ کی شکل و صورت اختیار کر لی،جس کا ایندھن عام خدا ترس و نیک مسلماں بننے لگے۔مسلم معاشروں میں معاشی بدحالی نے غربت کو جنم دیا،غریب غرباء￿  میں تعلیم کے فقدان سے طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا اور مدرسوں و درسگاہوں میں بچوں کے ناپختہ ذہنوں کو پراگندہ کیا جانے لگا۔قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا گیا ،نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اعتدل پسندانہ مبارک زندگی قابل قبول نہ رہی اور دنیاوی خداوں کی تعلیمات کو اولیت و فوقیت دی جانے لگی۔قرآن صرف عربی زبان میں ناظرہ پڑھایا جانے لگا،ترجمہ و تفہیم سے منکر ہو کر،تدبر،تفکر و غور و فکر کی گنجائش نہ رہی اور جہلا کی جماعت نے مسلم قیادت سنبھال لی۔جاہلیت عالمیت کی دشمن ہوتی ہے،قنوطیت منطق ،فلسفہ و استدلال کی قائل نہیں ہوتی اور اعتدال پسندی کی روایات کو بدعت قرار دے کر،ان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جاتا ہے۔جہلا کا ٹولا محض اپنے اماموں کی تعلیمات کا معتقد ہوتا ہے،دوسری عقل و فراست پر مبنی عالمانہ تعلیمات، گمراہ کن سمجھی جاتی ہیں اور ان شاہ دولا چوہوں کی ذہنی پستی، انھیں کافرانہ قرار دے کر ،گوارا نہیں کرتی۔یہ جنگیز خانی لشکر ٹڈی دل کی طرح،صوفی منش عالموں کی جماعت کو تہس نہس کر دیتا ہے اور جاہلیت کی سونمای ،علم کے گہواروں کو خس و خاشاک کی مانند بہا لے جاتی ہے۔عالموں کی تعداد ہمیشہ سے مختصر رہی ہے،جب کہ جہلا کی جماعت میں سینکڑوں افراد شامل رہتے ہیں اور عام سیدھے سادھے مسلمان ،ان کی تشدد آمیز حرکات سے خوفزدہ ہو کر ،خاموشی کی راہ اختیار کر لیتے ہیں۔معاشرے میں جہلا کے ٹولے کا راج ہو جاتا ہے،مثبت سوچ رکھنے والے اپنے گھروں میں نظربند ہو جاتے ہیں اور بچے کھچے عالم، ہجرت میں ہی اپنی اور خاندان کی خیر و عافیت سمجھتے ہیں۔معتدل صوفیانہ سوچ اور غور و فکر کی شکست ،جاہلانہ معاشرے میں منفی سوچ کو پروان چڑھاتی ہے اور ہر سمت آگ کا دریا رواں نظر آتا ہے۔مخالف سوچ رکھنا جرم گردانہ جاتا ہے،ان افراد کو واجب القتل قرار دے دیا جاتا ہے اور کسی بھی حیلے بہانے ان کی گردن زدنی کر دی جاتی ہے۔معاشرے میں علمی بحث و مباحثوں پہ قدغن لگا دی جاتی ہے، جہلا کا نقطہ نظر بلا تامل قبول کر لیا جاتا ہے اور جہالت کا دبیز پردہ معاشرے میں علمیت کو ڈھانپ دیتا یے۔دنیا ایسے جمود والے معاشرے سے قطع تعلق کر لیتی ہے،چونکہ بیرونی فکر کو کافرانہ قرار دے دیا جاتا ہے،لہذا سائنسی سوچ کا فقدان ہو جاتا ہے اور لوگ کنوئیں کے مینڈک بن کر رہ جاتے ہیں۔رب العزت قرآن میں فرماتا ہے،"جو قوم اپنی حالت نہیں بدلتی، اس کی حالت اللہ بھی نہیں بدلے گا "۔کہا ہم اپنے رب کی تعلیمات کے منکر ہیں ، نبی کریمﷺ کے ارشادات و فرمودات بھلا بیٹھے ہیں اور گر صورتحال یہی رہی،پھر یہ قنوطیت پرستی ہی ہمارے زوال کی ذمہ دار بن کر،قوم کو گہری کھائی میں دفن کر دے گی۔ایک سوال ضروری ہے، کیا عالموں کا خون رنگ لائے گا،معاشرہ اپنی ڈگر و ڈھنگ بدلے گا اور علمیت کا چراغ دوبارہ روشن ہو گا!

مزیدخبریں