مجھے شدید اضطراب اور غم لاحق ہے، جیسے میرے ملک کو بدقسمتی نے آ گھیرا ہو۔ وہ زمین جو کبھی آزادی اور ترقی کے خوابوں سے گونجتی تھی، اب تقسیم، انتشار اور مایوسی کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے۔ ایک متحد اور خوشحال پاکستان کا خواب مدھم ہوتا جا رہا ہے، اور پیچھے صرف کنفیوڑن، بے یقینی اور درد رہ گیا ہے۔
کئی جگہوں پر ہوا کو آنسو گیس نے آلودہ کر دیا ہے، جو ہمارے شہروں کو اپنی گرفت میں لینے والے انتشار کی مسلسل یاد دہانی ہے۔ وہ مظاہرے جو کبھی جمہوری حقوق کے پرامن اظہار تھے، اب میدان جنگ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ مظاہرین اور حکام کے درمیان جدوجہد اب بات چیت اور مفاہمت کے بارے میں نہیں رہی۔ اس کے بجائے یہ تشدد کا ایک چکر بن چکا ہے جس میں کوئی بھی فریق موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں، اور ہر مقابلہ حکمرانوں اور مظاہرین کے درمیان خلیج کو گہرا کر رہا ہے۔
ان مظاہروں کے دوران ایک خطرناک رجحان سامنے آیا ہے — راستے روکنے کے لیے کنٹینروں کا استعمال۔ یہ حکمت عملی روزمرہ کی زندگی کو مفلوج کر رہی ہے، کاروبار بند اور تعلیمی ادارے مقفل ہو جاتے ہیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں مریضوں کو اسپتال پہنچانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے، جس سے عوام کی زندگیوں کو سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ دفتری حاضری میں بڑی حد تک کمی آ جاتی ہے اور مواصلاتی نظام، بشمول فون اور انٹرنیٹ، منقطع ہو جاتے ہیں، جس سے لوگ اپنے پیاروں اور روزمرہ کے روزگار سے کٹ جاتے ہیں۔ خاندان اپنے گھروں میں سہمے رہتے ہیں، اس بات سے بے خبر کہ مستقبل کیا لے کر آئے گا۔ کیا یہ وہ ملک ہے جس کا خواب ہمارے آباؤ اجداد نے دیکھا تھا جب انہوں نے آزادی کے لیے اتنی قربانیاں دیں؟ اس تناظر میں سیاسی جماعتوں کو ایک مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ جمہوری حقِ احتجاج برقرار رہے لیکن عام شہریوں کی زندگی میں خلل نہ ڈالا جائے۔
ہمارے وطن کی عظیم تنوع، جو کبھی ہماری طاقت تھی، اب لامتناہی تنازعات کا باعث بن چکی ہے۔ اختلافات کو حل کرنے کے بجائے، پوشیدہ طاقتیں ہمیں تقسیم کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ وہ ہمیں نسلی، فرقہ وارانہ یا علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہمارے ملک کے تانے بانے کو بکھیر رہے ہیں۔ بھائی بھائی کے خلاف ہو رہے ہیں، ہمسایہ ہمسائے کے خلاف کھڑے ہیں، نہ کسی منطقی وجہ سے، بلکہ اس لیے کہ انہیں ایک خفیہ ایجنڈے کے تحت ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے پر آمادہ کیا گیا ہے۔
وہ ادارے جو ہمارے قومی وقار کا تحفظ کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف بندی میں مصروف ہیں، گویا غیر فعال ہو چکے ہیں۔ جب عوام کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری انہی اداروں کو سونپی گئی ہے، تو پھر ان کے حقوق کی حفاظت کون کرے گا جب یہ ادارے خود اپنے مفادات کے تحفظ پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں؟
نفرت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، اور جو رواداری کبھی ہماری پہچان ہوا کرتی تھی، وہ تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا، جو ہمیں بااختیار بنانے اور آپس میں جوڑنے کا ایک ذریعہ تھا، اب اختلاف اور عدم برداشت کا گڑھ بن چکا ہے۔ شائستہ مکالمہ الزام تراشی کی زہریلی ثقافت میں بدل چکا ہے۔ احترام اور صبر کی قدریں اس شور میں دب گئی ہیں کہ ہر بحث کو جیتنا ہے، دوسرے کو نیچا دکھانا ہے، چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔ ایسے لمحوں میں، میں سوال کرتا ہوں، ''کیا کوئی ہے جو اس تنزلی کے عمل کو روک سکے؟'' کیا کوئی ہے جو اس افراتفری سے بلند ہو کر ہمیں یاد دلائے کہ ہم کیا کھونے جا رہے ہیں؟ ہمارا ملک صرف اس کی سرحدیں یا اس کا جھنڈا نہیں ہے؛ یہ اس کے عوام کی مشترکہ روح ہے۔ لیکن وہ روح نفرت، عدم برداشت اور انتشار کی قوتوں سے ختم ہو رہی ہے۔ ہمیں ایسی آوازوں کی ضرورت ہے جو اس شور کے اوپر اٹھ سکیں—ایسے رہنما جو ہمیں اس بربادی سے واپس کھینچ سکیں اور ہمیں اْن نظریات کی یاد دلائیں جو کبھی ہمیں متحد کرتے تھے۔
کہاں ہیں وہ ایماندار سیاستدان، دانشمند علما، اور ضمیر والے کارکنان جو مداخلت کر سکیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے؟ لیکن ہم مایوسی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دے سکتے۔ ہماری قوم کا مستقبل اْن اقدامات پر منحصر ہے جو ہم آج اٹھاتے ہیں۔ خاموشی اور بے حسی صرف اندھیرے کو مزید پھیلنے دے گی۔ ہمیں ان مسائل کا سامنا کرنا ہوگا، چاہے وہ کتنے ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہوں، اور چاہے اس میں ہمیں اپنی اندرونی بدصورتی کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
قوم کو کسی ایک نجات دہندہ کی ضرورت نہیں ہے؛ ہمیں ایک اجتماعی بیداری کی ضرورت ہے۔ ہمیں اْس اتحاد کی روح کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا جس کی ہمارے بانیان نے بات کی تھی۔ صرف ان مشکلات سے بچنا کافی نہیں؛ ہمیں مضبوط ہو کر ابھرنا ہے، انصاف، مساوات، اور امن کے ساتھ ایک نئی وابستگی کے ساتھ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان لاکھوں لوگوں کے خوابوں پر بنایا گیا تھا جنہوں نے ایک ایسے مستقبل پر یقین کیا تھا جہاں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ہو سکتے ہیں۔
ہم ان کے خوابوں کو مرنے نہیں دے سکتے۔ جو طاقتیں ہمیں تقسیم کرنا چاہتی ہیں وہ مضبوط ہیں، لیکن ناقابل شکست نہیں۔ اگر ہم میں اکٹھا ہونے کا حوصلہ ہو، اگر ہم ان خلیجوں کو پاٹ سکیں جو ہمارے درمیان پیدا کی گئی ہیں، تو ہم ان طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے رہنماؤں کو جوابدہ بنانا ہوگا، شفافیت اور انصاف کا مطالبہ کرنا ہوگا، اور ان سیاسی کھیلوں کا شکار ہونے سے انکار کرنا ہوگا جو صرف طاقتور لوگوں کے مفادات کے لیے کھیلے جاتے ہیں۔
اس بحران کے وقت، ہم میں سے ہر ایک کا کردار ہے۔ ہم اب محض تماشائی نہیں رہ سکتے۔ اگر ہم واقعی اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں، اگر ہم واقعی اسے دوبارہ پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں کھڑا ہونا ہوگا۔ شفا یابی کا راستہ مشکل ہوگا، لیکن یہ وہ سفر ہے جو ہمیں شروع کرنا ہوگا اگر ہم اپنی قوم کی روح کو دوبارہ پانا چاہتے ہیں۔