اگر دنیا میں ہونے والی جنگوں کے محرکات پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ آج تک جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں بسا اوقات وہ معمولی باتوں اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے حصول کے لئے شروع ہوئیں جن سے لاکھوں انسان اپنے جیسے ہی دوسرے انسانوں کی وحشت کا نشانہ بنے ۔پھر وہ کھوپڑیوں کے میناروں کی روح فرسا کہانیاں ہوں یا بھوک اور افلاس کے مارے ریاستوں سے ٹکراتے کمزوروں کی بہادری کی داستانیں ہوں سبھی میں واضح طور پر ٹکرائو کی وجوہات کہیں نہ کہیں حق تلفیاں اور نا انصافیاں ہی نظر آتی ہیں ۔کیونکہ جنگی عزائم پیدائشی طور پر انسان کے اندر موجود ہوتے ہیں جنھیں تحریک تبھی ملتی ہے جب اسے باور کروادیا جاتا ہے کہ اولاً اس کی حق تلفی ہو رہی ہے دوئم یہ کہ اس کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر کوئی پشیمان نہیں لہذا اپنا حق چھیننے کے لیے وہ جو بھی کرے گا وہ جائز اور برحق ہوگا ۔ پھر ایسا شخص اپنے مفادات کو بچانے ،اپنی کسی غلطی کو چھپانے یا حق تلفی کے خلاف اگریشن کا سہارا لیتا ہے ۔یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اینگر (غصہ) وقتی کیفیت ہے جو کہ عام پائی جاتی ہے جبکہ ایگریشن،جارحیت یا انتہا پسندی کوکہا جاتا ہے جس کا مظاہرہ اپنے سے کمزور پر ہوتا ہے اگر روکا نہ جائے تو اکثر طاقتوربھی اپنی لپیٹ میں آجاتاہے ۔۔
ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس جنگی جذبے کی بالیدگی بنی نوع انسان کے لئے واقعی خطرناک ہے تو نسلی ارتقاء کے ماہرین کے مطابق جنسیت کی طرح جارحیت بھی ہر نوع کی بقاء کے لیے ناگزیر ہے ۔بلاشبہ جارحیت انسان میں دھونس بازی اور آگے بڑھنے کی تحریک اجاگر کرتی ہے جس کے نتیجے میں زیست کی مشکلوں سے نبرد آزما ہونے اور کامیابیوں کی سیڑھیاں عبور کرنے میں مدد ملتی ہے ۔تاہم مذکورہ جذبہ حد سے بڑھ جائے تو انسان وہی دیکھتا ، سنتا اور محسوس کرتا ہے جو اس کی جارحانہ فکر پر پورا اترے ۔ایسے میں عام طور پر کوئی موٹیویشنل شخص ہو تو ذہن اس کا غلام ہوجاتا ہے وگرنہ وہ واقعہ جوتحریک کی وجہ بنا وہی ایسے حاوی ہوجاتا ہے کہ انسان ہر حد پار کر دیتا ہے اور یہی برتری اور غالب آنے کی خواہش ایک عام فرد کو رہنما ،مجرم اور باغی بنا دیتی ہے کیونکہ تحمل ،صبر اور عاجزی کو وہ اپنی کمزوری سمجھنے لگتا ہے یقینا حد پار کرنے والامحض اپنا نقصان نہیں کرتا بلکہ معاشرتی طور پربھی اذیت اور تشویش کا باعث بن جاتا ہے جس کا اسے خود بھی احساس نہیں ہوتا ۔۔
جیسا کہ اس وقت ہمارے ملک میں جارحانہ رحجان عروج پکڑ چکا ہے کیونکہ خان صاحب نے بالادست طبقوںکی نا انصافیوں ،ریشہ دوانیوں اور من مانیوں کے خلاف عوامی اینگر کو ایگریشن میں بدل دیا ہے جسے جہالت ،تشدد اوربغاوت سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔حالانکہ یہ رویہ ایک مدت سے ہمارے ملک میں عام تھا لیکن عام آدمی اپنے بچوں کو یہی کہتا وقت گزار رہا تھا کہ ’’اے شمع! تجھ پہ یہ رات یہ بھاری ہے جس طرح ،میںنے تمام عمر گزاری ہے اس طرح ‘‘ آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ عمران خان نے اپنی سیاست اور حکومت کی بنیاد جارحانہ بیانیوں پر رکھتے ہوئے عام انسان کے جنگی جذبہ کو تحریک دی اور بالا دست طبقوں کے خلاف نفرت کا ایسا بیج بویا جو کہ گزرے وقت کے ساتھ تناور درخت بن چکا ہے ۔۔ ان کی باتیں درست ہیںلیکن قول و فعل میں تضاد ہے کہ اپنا حال یہ ہے کہ بات لاکھ کی مگرکرنی خاک کی کہ صرف باتیں ہی باتیں ہیں ۔بیک ڈور ملاقاتیںبھی ہیں،سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ کے انکشافات بھی ہیں اوربیانیوں میں درخواستیں بھی ہیں کیونکہ ہدف عوامی فلاح نہیں بلکہ کرسی ہے ۔۔دور مت جائیں یہی دیکھ لیں کہ پہلے برسر اقتدار تھے تو مافیاز کے طاقتور ہونے کا رونا روتے نظر آتے تھے حالانکہ اپوزیشن بھی نہیں تھی پھر بھی ارد گرد بیٹھے خوشامدیوں اور درباریوں نے کبھی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہیں کرنے دیا اور یہی راگ آلاپتے نظر آئے کہ مافیاز طاقتور ہیں کہ خود تو کسی بیانیے پر ڈٹنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے لیکن عام آدمی کے جارحانہ رحجان کو تحریک دینے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں جس کے سنگین نتائج بھی وقت کی گھڑیوں نے دیکھے ہیں اور پھر ریاست سے ٹکرائو کے لئے عوام الناس کو موٹیویٹ کیا جا رہا ہے جبکہ حکومت انتشار و افراتفری کے خلاف ایکشن کا عندیہ بھی دے چکی ہے لیکن خان صاحب بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح ہر حد پار کرتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ عام آدمی کو استعمال کرتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہوجائیں گے جیسے ماضی کے حکمران سیاہ کو سفید کر کے ہوئے بائیں وجہ اقتدار کی جنگ خانہ جنگی کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے جو کہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں خاص طور پر ملک و قوم کے دفاع اور سالمیت کے لیے کھلا خطرہ ہے ۔۔
بظاہر خان آزادی احتجاج معمولی نظر آرہا ہے جبکہ اس کا دائرہ کار بڑھتا جا رہا ہے اوربیرون ممالک احتجاج کی گونج لمحہ فکریہ ہے ۔۔! وہ ممالک جو کہ مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھتے انھیںواضح پیغام جا رہا ہے کہ عوام ریاستی اداروں سے برسر پیکار ہیں اور اگر آپ جنگ عظیم اول سے لیکر تما م جنگوں کا جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھیں تو جنگ عظیم دوئم ،کوریا جنگ ،ویت نام جنگ ، افغان جنگ ، عراق جنگ ،عرب اسرائیل جنگ ،عرب انقلاب ،شام اور یمن خانہ جنگی سبھی کا آغاز تقریباً ایسے ہی حالات کا عندیہ دے گا جو کہ طاقت اور جارحیت کے مظاہروں کے بعد حریفوں کے لئے آسان ہدف بنے اور پھر بہت کمزور ہوکر کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے! تو سوچیںکہ تباہی و بربادی چاہتے ہیں یا امن ! اسلام پر امن اور متوازن زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے ،جنگ مسائل کا حل نہیںبلکہ تباہی کا نقارہ ہوتی ہے ۔موجودہ حالات سے واضح ہے کہ بہترین حکمت عملیوں کے ذریعے ملک کو بحرانوں سے بچانا اشد ضروری ہے جس میں فارم45اور47کے تارعنکبوت کو توڑنا اور عدلیہ کی خودمختاری اہم ہے کیونکہ ایسی من مانیوں ، نادانیوں اور نا انصافیوں کیوجہ سے وطن عزیز بحرانوں میں گھر چکا ہے تو ایسے میں ظلم کی رات کیسے ڈوبے گی ، امن و سلامتی اور خوشحالی کا سورج کیسے طلوع ہوگا ؟ملک و قوم کی بہتری و سلامتی کے لئے مشاورت کا راستہ اپنائیں کیونکہ اب ملک معاشی لحاظ سے بھی کسی تصادم ،لانگ مارچ یا راستوں کی بندش کا متحمل نہیں رہا ۔۔