آپ 1872ء میں پھلیاں تحصیل پلندری ریاست جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے۔اپنے علاقہ سے ابتدائی تعلیم کے بعد آپ گجرات اور پشاور کے مدارس سے فیض یاب ہوتے ہوئے لاہور میں مولانا غلام قادر بھیروی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ان سے بھر پور علمی استفادہ کے بعد کچھ عرصہ مدرسہ امداد الاسلام میرٹھ میں بھی زیر تعلیم رہے۔ آپ علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد جامع مسجد خراسیاں اندرون لوہاری دروازہ میں خطیب مقرر ہوئے۔ آپ خطابت کے ساتھ ساتھ تدریس بھی فرماتے رہے۔ مولانا غلام حیدر اپنے وقت کے ایک جید عالم اور یگانہ روزگار مدرس تھے جب کہ آپ علم میراث میں تخصص کے حامل بھی تھے۔ علم میراث میں کمال دسترس کی بدولت آپ سراجی بابا کے لقب سے مشہور ہوئے۔ جامعہ فتحیہ کے طلبہ کی سراجی میں مہارت سراجی بابا کی ہی مرہون منت تھی۔ مولانا غلام حیدر نے ایک بھر پور علمی و تدریسی زندگی گزار کر 1959ء میں 87 سال کی عمر میں وفات پائی۔
٭٭٭
مولانا محمد یعقوب ہزاروی
آپ 1898ء میں سالدار بٹل،مانسہرہ میں مولانا غلام علی بن مولانا محمد ظریف خان کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد اور بڑے بھائی مولانا محمد قلندر سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ ہزارہ اور کیمبل پور (اٹک) کے مدارس میں پڑھتے رہے۔ پھر جامعہ فتحیہ تشریف لائے یہاں آپ 5 برس زیر تعلیم رہے اور موقوف علیہ تک تعلیم حاصل کی۔ دورہ حدیث شریف کے لیے آپ دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے وہاں مولانا انور شاہ کاشمیری و دیگر اساطین علم سے کتب حدیث پڑھیں۔ اس کے بعد رامپور کا رخ کیا وہاں مولانا سید احمد ہزاروی اور مولانا منور علی محدث سے سند فراغت حاصل کی۔ آپ نے اسی دوران الہ آباد یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ ہزاروی صاحب نے حدیث نبوی شریف سے عقیدت کی وجہ دوبارہ دورہ حدیث شریف کے لیے ندوۃ العلماء لکھنو میں داخلہ لیا اور مولانا حیدر حسن خان محدث سے سند فراغت حاصل کی۔
مولانا محمد یعقوب ہزاروی ایک جامع الکمالات شخصیت تھے۔ آپ نے فرق باطلہ کی سرکوبی کی تربیت مولانا عبدالشکور فاروقی لکھنوی سے حاصل کی۔ اور علم التجوید میں آپ نے قاری عبد المالک سے کسب فیض کیا۔ آپ دینی تعلیم سے فراقت کے بعد طب کی طرف متوجہ ہوئے اور ادارہ تکمیل الطب لکھنؤ سے فاضل طب و جراحت کی سند کے مستحق ٹھہرے۔ ہزاروی صاجب نے مدرسہ قدیمیہ لکھنؤ سے تدریس کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ مطلع العلوم رام پور میں بھی پڑھاتے رہے۔ آپ 1936ء میں اپنے آبائی علاقہ لوٹ آئے اور ’واہ سیمنٹ ورکس‘ کی جامع مسجد میں امامت و خطابت کی ذمہ داری سنبھالی۔ کچھ ہی عرصہ بعد آپ نے منبع العلوم کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی جہاں تادم واپسیں تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ مولانا محمد یعقوب نے کئی کتب کے حواشی بھی لکھے جو تاحال غیر مطبوعہ ہیں۔ آپ نے نصف صدی سے زائد درس و تدریس میں مصروف رہنے کے بعد 21 مئی 1982ء کو وفات پائی۔
٭٭٭
مولانا عبدالقیوم
آپ 1899ء میں خالو غازی، تربیلا میں مولانا برہان الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق قریشی النسل خاندان سے ہے۔ان کے والد دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے۔ مولانا عبدالقیوم کی تعلیم کا آغاز اپنے والد گرامی سے ہوا، پھر تحصیل علم کے لیے غورغشت،کیمبل پور اور اس کے بعد حافظ غلام رسول کی خدمت میں موضع انہی، گجرات تشریف لے گئے، کچھ عرصہ موضع کوکل اور موضع شاہ محمد میں بھی پڑھتے رہے۔ آپ 1927ء میں جامعہ فتحیہ تشریف لائے، آپ یہاں چھ برس زیر تعلیم رہے اور اس دوران انہوں نے جامع المعقول والمنقول مولانا مہرمحمد اچھروی، مولانا محمد چراغ، مولانا سید دوران شاہ اور حافظ محمد حسین سے کسب فیض کے بعد درس نظامی کی تکمیل کی۔ پھر آپ 1933ء میں دورہ حدیث شریف کے لیے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمد رسول خان اور دیگر اساتذہ کرام سے فیض یاب ہو کر 1934ء میں دورہ حدیث شریف کی تکمیل کی۔
مولانا عبدالقیوم کے تدریسی سفر کا آغاز 1934ء میں میرٹھ سے ہوا۔ آپ 1935ء تا 1938ء کوٹ نجیب اللہ، ہزارہ کے مڈل سکول میں تدریس کے ساتھ ساتھ جامع مسجد میں خطابت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد 1938ء سے 1959ء تک اپنے گاؤں کے سکول میں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے رہے۔آپ 1959ء میں سکول ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی آبائی مسجد میں امامت اور جامع مسجد نشاط کیمپ، تربیلا میں خطابت کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔