چینی کی قیمتیں عدالتی فیصلوں کااحترام لازم

رانا اعجاز احمد خان ......
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس خواجہ محمد شریف اور مسٹر جسٹس اعجاز چودھری پر مشتمل ڈویژن بنچ کا چینی کی قیمت 40 روپے کلو مقرر کرنے کا فیصلہ قابل تحسین اور آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ انہوں نے عام آدمی کے گلے تک پہنچے ہوئے منافع خوروں کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی ہے۔ حکومت پنجاب نے تو پہلے ہی غریب لوگوں کے لئے چینی کی قیمت 40 روپے کلو مقرر کر رکھی ہے لیکن اس کے حصول کے لئے لوگوں کو بھی لائنوں میں کھڑے ہو کر ڈنڈے بھی کھانے پڑتے ہیں اور چینی بھی خدا واسطے نہیں، ادائیگی کر کے لینا پڑتی ہے۔ عدالت عالیہ نے چینی کی 40 روپے قیمت اچانک اور آناً فاناً نہیں فریقین کا موقف سننے کے بعد مقرر کی ہے۔ ملز مالکان نے خود تسلیم کیا ہے کہ مارچ 2009ء میں ٹی سی پی کو 28 روپے فی کلو فروخت کی تھی ساتھ ہی جواز پیش کر دیا کہ وہ پرانا سٹاک تھا تو نیا سٹاک تو اگلے سال مارچ میں باہر لانا ہے۔ اس وقت تک قیمت 28 روپے میں ہونی چاہئے۔ عدالتیں تمام فریقوں کا موقف سمجھتی ہیں کون کہاں سے بول رہا ہے عدالت کو سب اندازہ ہوتا ہے فیصلہ بہرحال شواہد کی بنیاد پر ہی کیا جاتا ہے چینی کی قیمت مقرر کرنے کا فیصلہ بھی بالکل عین برحق اور انصاف کے تمام تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ملز مالکان تلملا رہے ہیں اور اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا ارادہ باندھ رہے ہیں۔ وہاں سے تین میں کوئی ایک فیصلہ آ سکتا ہے۔ 1 ملز مالکان کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ چینی کی فی کلو قیمت 47 روپے ہی رہنے دے۔ 2 عدالت عالیہ کے فیصلے کے مطابق 40 روپے کلو مقرر کر دے 3 یہ بھی ممکن ہے کہ صارفین کا کیس اچھے طریقے سے پیش کیا جائے اور سپریم کورٹ قیمت 35 روپے کلو مقرر کر دے آخری فیصلے کا امکان یوں زیادہ ہے کہ جسٹس افتخار محمدچودھری عوام کو ریلیف پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔ اگر چینی کی قیمت صارفین کے لئے 35 روپے کلو مقرر کی جاتی ہے تو بھی شوگرمل مالکان کے لئے گھاٹے کا سودا نہیں۔ ان کو پھر بھی کچھ نہ کچھ منافع ضرور ہو جائے گا۔ اس لئے ان کو یہ سب سوچ کر سپریم کورٹ کادروازہ کھٹکھٹانا چاہئے کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ منافع کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کہتے ہیں کہ زیادہ تر شوگر ملیں سیاستدانوں کی ہیں۔ سیاستدانوں سے پہلے تو یہ انسان ہیں ان کو انسانوں اور انسانیت کا خیال رکھنا چاہئے۔
پنجاب حکومت نے پورے عزم کے ساتھ کہا ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کے مطابق چینی کی 40 روپے کلو فروخت یقینی بنائے گی ۔ دوسری طرف وزیر صنعت و پیداوار خم ٹھونک کر شوگر ملز مالکان کی مدد کو آ پہنچے ہیں اور عدالت عالیہ کے حکم پر چینی فروخت کرانے سے معذرت کر لی ہے۔ شوگر مل مالکان کا واویلا ہے کہ ہائی کورٹ نے ان کا موقف سنے بغیر ریٹ طے کر دیئے ہیں۔ 40 روپے چینی فروخت کرنے سے شوگر ملیں دیوالیہ ہو جائیں گی ایسا ہی رہا تو یہاں پاکستان میں چینی کی پیداوار کا آخری سال ہو گا۔ اس کے بعد پاکستان میں چینی کی پیداوار ختم ہو جائے گی۔ یہ لوگ خود معاملات ایسی سطح پر لے جا رہے ہیں جس کے آگے خود ان کے لئے اندھیرا ہے۔ ایک شوگر مل 30 ارب سے زائد سرمایہ سے لگتی ہے ان کے ایک نمائندے نے ایک ٹی وی انٹرویو میں فرمایا ’’ حکومت 6 ماہ میں بھی چینی کے بحران پر قابو نہیں پاسکے گی۔ حکومت کیا کر لے گی ملوں پر قبضہ کرے گی‘‘ یہ لوگ اربوں روپے کی ملوں پر قبضہ کرانے کے لئے تیار ہیں اپنے اندھا دھند منافع سے کچھ کم کرنے کو تیار نہیں۔ گنے کا سیزن ہوتا ہے تو ادھار گنا خرید کر کسانوں کو خوار کیاجاتا ہے گڑ اور شکر بنانے والوں کو گرفتار کرا دیا جاتا ہے عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ ہو تو ان کی رال ٹپکنے لگتی ہے۔ ان کی چینی پر جو لاگت آ چکی سو آ چکی اب عالمی مارکیٹ کی قیمتوں سے ان کا کیا تعلق؟ اگر عالمی مارکیٹ میں قیمتیں گر جائیں تو کیا یہ بھی کم کر دیتے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پنجاب حکومت کا عدالت عالیہ کے فیصلے کے عملدرآمد کرانے کا عزم قابل تحسین ہے۔ مرکزی حکومت کو بھی عدالتی فیصلوں کا احترام کرنا چاہئے اور بغیر کسی لیت و لعل، آئیں بائیں شائیں اور ملز مالکن کے دباؤ کا شکار ہوئے بغیر عدلیہ کے فیصلے پر عملدرآمد کراتے ہوئے چینی کی 40 روپے کلو میں فروخت یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے اور یاد رکھیں کہ صاحب اقتدار لوگوں کو عدالت کے کٹہرے میں آنا پڑتا ہے۔ اگر ایسے حالات ان پر آئیں پیشی کے وقت سر جھکا اور نظریں نیچی نہ ہوں بلکہ فخر سے کہہ سکیں کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے عدالتی فیصلوں پر ہر دباؤ کے باوجود عملدرآمد کرایا۔

ای پیپر دی نیشن