کرپشن کا بازارِ حْسن!

حکومت ان دنوں مختلف اقسام کے الزامات کی زد میں ہے۔ سب سے بڑا الزام کرپشن کا ہے ۔اقتدار کا ’’ہیڈ آفس‘‘ اس حوالے سے بدنامی کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ پہلے اس کی طرف انگلیاں اٹھتی تھیں اب پورے کے پورے ہاتھ اٹھنے لگے ہیں۔ کہا جاتا ہے اس وقت کوئی ایسا پراجیکٹ نہیں جس میں کوئی نہ کوئی اپنے ’’مشن‘‘ پر نہ ہو۔اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کمیشن کے لئے باقاعدہ ایک ’’کمیشن‘‘ بٹھا دیا گیا ہے۔
کس قدر المیہ ہے چینی سے لے کر آٹے تک ہر طرف چور ہی چور دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکو کہنا زیادہ مناسب ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی لفظ ہو تو وہ بھی ان کے لئے کم ہے۔ سب کا ایک ہی مشن ہے۔ کھاؤ، پیو، موج اڑاؤ اور بھاگ جاؤ۔ سعودی عرب سے لے کر امریکہ تک سب ان کی ’’پناہ گاہیں‘‘ ہیں اور پاکستان جنت کا ٹکڑا۔ جہاں ان کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔ چند ماہ قبل حکمران قلم کار کو اپنے دو سو ایکڑ پر مشتمل خادم ہاؤس لے گیا۔ یقین کیجئے ’’حوروں‘‘ سے لے کر اصلی دکھائی دینے والی دودھ اور شہد کی مصنوعی نہروں تک سبھی کچھ وہاں موجود تھا قلم کار نے حکمران کی خدمت میں عرض کیا ’’اگلے جہان آپ کو دوزخ مل بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے کہ جنت تو آپ یہاں دیکھ ہی چکے ہیں، اصل مسئلہ تو ہم ’’بھیڑ بکریوں‘‘ کا ہے جنہیں یہاں بھی جنت نہ مل سکی اور اگلے جہان بھی معاملہ مشکوک ہی دکھائی دیتا ہے‘‘۔ تو جناب عرض ہے پاکستان حکمرانوں کو جنت اور عوام یعنی سترہ کروڑ بھیڑ بکریوں کو ’’دوزخ‘‘ کی طرح دکھائی دیتا ہے اور اس وقت تک دکھائی دیتا رہے گا جب تک ’’بھیڑ بکریاں‘‘ اپنا حق چھین لینے کے جذبے سے سرشار نہیں ہوتیں۔ یقین فرمائیے جِس روز ایسا ہوگیا ’’بھیڑئیے‘‘ دم دبا کر بھی نہیں بھاگ سکیں گے۔ قدرت چیونٹی سے ہاتھی اور چڑیوں سے باز مروا سکتی ہے تو سترہ کروڑ بھیڑ بکریوں سے بھیڑیے بھی نہیں بچ سکتے! ۔
بدقسمتی سے پاکستان کا شمار اب ایسے ممالک میں ہونے لگا ہے جن کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہاں جو رشوت لیتے پکڑا جاتا ہے رشوت دے کر چھوٹ جاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک سب اس کے ’’رشتہ دار‘‘ بیٹھے ہوئے ہیں جو اسے زد تک نہیں پہنچنے دیتے۔ چھوٹی موٹی کرپشن کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں ہوتا۔ کرپشن کے گورو فرماتے ہیں لمبے ہاتھ مارو، یعنی کرپشن کرنی ہے تو کھربوں کی کرو تاکہ اربوں دے کر چھوٹ جاؤ یا پھر اربوں کی کرو تاکہ کروڑوں روپے دے کر چھوٹ جاؤ۔ چھوٹی موٹی کرپشن کرنے والی مچھلیاں تو پکڑی جاتی ہیں اور بڑی بڑی کرپشن کرنے والے مگرمچھ اول تو پکڑے نہیں جاتے اور کبھی پکڑے جائیں تو این آر او کے ’’بہشتی دروازے‘‘ سے گزار کر انہیں ’’فرشتے‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ سو پاکستان میں ان دنوں ’’فرشتوں‘‘ کی حکومت ہے۔ انہیں ’’موت کے فرشتے‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’’سترہ کروڑ بھیڑ بکریوں‘‘ کے ارد گرد یہ یوں منڈلاتے ہیں جیسے ان کی جان نکالنے آئے ہوں!۔
ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں انسداد رشوت ستانی کے اداروں کی کچھ توقیر ہوا کرتی تھی۔ نیب جیسے اداروں نے کچھ ’’مگرمچھوں‘‘ پر ہاتھ ڈالنے کی جرات بھی کی یہ الگ بات ہے جب یہ مگرمچھ ’’آزاد‘‘ ہوئے تو اس ادارے کو یوں کھا گئے جیسے اقتدار پسند جرنیل جمہوریت کو کھا جاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں مارتے۔ اینٹی کرپشن کو تو بہت پہلے ’’آنٹی کرپشن‘‘ کہا جانے لگا تھا مگر نیب وقتاً فوقتاً ایسی کارکردگی ضرور دکھاتا رہا جس سے محسوس ہونے لگا تھا اس ادارے کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا گیا تو کرپشن میں پہلے نمبروں پر آنے والا پاکستان آخری نمبروں پر نہ سہی کم از کم درمیانی نمبروں میں ضرور آنے لگے۔ افسوس کہ اس ادارے کی بوٹیاں بھی نوچ لی گئیں جیسے دیگر قومی اداروں کی بوٹیاں نوچنے کے عمل کو ان دنوں ’’قومی مفاد‘‘ کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ اب تو کْھلا ای کھاؤ والا معاملہ ہے۔ ایک بھی ادارہ ایسا نہیں نوٹ اور ووٹ کھانے والے مگرمچھوں کو جس کا کوئی ڈر خوف ہو۔ سو پاکستان ان دنوں ان ’’اگر مگرمچھوں‘‘ کے لئے جنت کا ایسا ٹکڑا ہے جسے یہ ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتے ہیں۔مجھے یقین ہے اس سے قبل ہی یہ خود ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے کہ پاکستان ہمیشہ سلامت ہی رہے گا، ان کی خواہشات کے برعکس!

ای پیپر دی نیشن