پاکستان کے عظیم صوبہ سندھ کی سیاست کے حوالے سے پچھلے بیس پچیس سال کے دوران احساس محرومی کا بہت چرچا رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا احساس محرومی کے محرک (Factor) کو خاص طور پر یہ اندرون سندھ کی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت حاصل رہی ہے۔ 1988ءسے 1996ء کے عرصے کے دوران جو مرحومہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ ملک کی وزیراعظم منتخب ہوئیں اس کے بعد بھی جو وہ 27 دسمبر 2007ءکو اپنے افسوسناک قتل تک انہیں پاکستان کی سیاست کی اہم تر کھلاڑی کا مقام حاصل رہا اس میں احساس محرومی یا سندھ کارڈ کا خاصا عمل دخل تھا۔ ان کے سیاسی وارث کی حیثیت سے موجودہ صدر پاکستان آصف علی زرداری بھی اس پتے کو خوب کھیلتے رہے ہیں۔ جب بھی مشکل وقت آیا اسے ہوا میں لہرا کر جذباتی صورت حال پیدا کر دی جاتی ہے۔ لیکن اب حالات الٹا رخ اختیار کر رہے ہیں۔ جناب زرداری اور صوبے کے شہری علاقوں میں ان کی بار بار روٹھ کر مان جانے والی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ چپقلش
HATE RELATION SHIP LOVE AND نے سندھ بھر میں جو نیا احساس محرومی پیدا کیا ہے وہ منفرد بھی ہے۔ ملک کے جسد سیاسی پر گہرے منفی اثرات بھی مرتب کر رہا ہے رسد نے صرف صوبہ سندھ بلکہ پورے ملک کو احساس شرمندگی سے دوچار کیا ہے۔ بیرون ملک جو ہئیت کذائی ہوئی ہے اس کا صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سندھ کی محرومی اور لاچاری ملاحظہ کیجئے کہ یہاں کی سب سے بڑی سیاسی ٹیموں کے درمیان اتحادی ہونے کی بنا پر جو دوستانہ میچ جاری ہے۔ اس کی ایک ایک ادا سے خون ٹپک رہا ہے۔ ایک دوسرے کے کارکنوں یہاں تک بے گناہ شہریوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں۔ بوری بند لاشوں کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ مخالفین کے علاقوں میں بسنے والوں کا جینا حرام کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ فریقین کے ایجنٹوں کی جانب سے روزانہ کروڑوں روپے کی بھتہ خوری نے تجارت اور معیشت کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ ”اتحادیوں“ کے درمیان جاری یہ وہ عمل رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اگر دوچار روز کے لئے وقفہ آتا ہے تو پھر تازہ دم ہو کر ایسی اٹھان لیتا ہے کہ پچھلی کمی پوری ہو جاتی ہے۔ دہشت گردی کا بھوت سندھ کے سب سے بڑے شہر اور اس کراچی پر جو کبھی پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہوتا تھا۔ اس طرح ناچ رہا ہے کہ پاکستان کی چونسٹھ سالہ تاریخ بلکہ اس سے قبل بھی کم ایسا ہوا ہو گا۔ اس امر نے ہمارے صوبہ سندھ کی محرومیوں میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ ان جماعتوں اور ان کے رہنما¶ں نے اسلام کے نام پر اور خالصتاً جمہوری طریقے سے حاصل کردہ پاکستان کے اس حصے کے اندر ایسی لسانی اور نسلی منافرت پیدا کی ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ کیا سندھ کی آنے والی نسلیں اسے بھول پائیں گی۔
معاملہ صرف صوبے کی دو تین بڑے سیاسی جماعتوں اور ان کے زیر سایہ متحرک لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا گروہوں کے درمیان خونی مناقشت تک محدود نہیں رہا۔ خود ان کے اپنے اندر بھی جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ الطاف حسین نے اپنے سابق رفیق ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے انکشافات سامنے آنے پر خاصے پریشان ہیں۔ انہیں کراچی میں بھی کچھ رفقاءپر پہلا سا اعتماد نہیں رہا۔ باقی کسر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے قرآن سر پر رکھ کر رازوں سے پردہ اٹھانے کی نہایت موثر کوشش نے پوری کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے اندر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور رحمن ملک کے مابین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا وہ تماشا جاری ہے کہ اللہ دے اور بندہ دے۔ پیپلز پارٹی کے زعماءبلکہ زرداری صاحب کے قریب ترین ساتھی آپس میں اعتماد کے بہت بڑے بحران کا شکار ہیں۔ ملک دشمنی کے وہ الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ سن کر روایتی مخالفین بھی شرم محسوس کریں۔ اب ذوالفقار مرزا اکیلے نہیں رہے۔ بلوچستان سے پارٹی کے سینیٹر لشکری رئیسانی بھی ان کے ہمنوا بن گئے ہیں۔ ذوالفقار مرزا کے حق میں اندرون سندھ سے بھی ہمدردی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ زرداری صاحب کو خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔ اسی ہوا کے گھوڑے پر سوار ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے اپنے محسن اور سیاسی پیشوا پر ملک دشمنوں کا ساتھی ہونے کی پھبتی کسی ہے اور ان سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا ہے تو کیا سندھ کارڈ الٹا پڑ گیا ہے اس نے نیا رنگ جمانا شروع کر دیا ہے۔ جناب زرداری ان کے ساتھیوں اور الطاف بھائی جیسے اتحادیوں نے مل کر سندھ کو جس محرومی سے شکار کیا ہے‘ لوگ تادیر اس پر کف افسوس ملیں گے۔
HATE RELATION SHIP LOVE AND نے سندھ بھر میں جو نیا احساس محرومی پیدا کیا ہے وہ منفرد بھی ہے۔ ملک کے جسد سیاسی پر گہرے منفی اثرات بھی مرتب کر رہا ہے رسد نے صرف صوبہ سندھ بلکہ پورے ملک کو احساس شرمندگی سے دوچار کیا ہے۔ بیرون ملک جو ہئیت کذائی ہوئی ہے اس کا صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سندھ کی محرومی اور لاچاری ملاحظہ کیجئے کہ یہاں کی سب سے بڑی سیاسی ٹیموں کے درمیان اتحادی ہونے کی بنا پر جو دوستانہ میچ جاری ہے۔ اس کی ایک ایک ادا سے خون ٹپک رہا ہے۔ ایک دوسرے کے کارکنوں یہاں تک بے گناہ شہریوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں۔ بوری بند لاشوں کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ مخالفین کے علاقوں میں بسنے والوں کا جینا حرام کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ فریقین کے ایجنٹوں کی جانب سے روزانہ کروڑوں روپے کی بھتہ خوری نے تجارت اور معیشت کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ ”اتحادیوں“ کے درمیان جاری یہ وہ عمل رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اگر دوچار روز کے لئے وقفہ آتا ہے تو پھر تازہ دم ہو کر ایسی اٹھان لیتا ہے کہ پچھلی کمی پوری ہو جاتی ہے۔ دہشت گردی کا بھوت سندھ کے سب سے بڑے شہر اور اس کراچی پر جو کبھی پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہوتا تھا۔ اس طرح ناچ رہا ہے کہ پاکستان کی چونسٹھ سالہ تاریخ بلکہ اس سے قبل بھی کم ایسا ہوا ہو گا۔ اس امر نے ہمارے صوبہ سندھ کی محرومیوں میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ ان جماعتوں اور ان کے رہنما¶ں نے اسلام کے نام پر اور خالصتاً جمہوری طریقے سے حاصل کردہ پاکستان کے اس حصے کے اندر ایسی لسانی اور نسلی منافرت پیدا کی ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ کیا سندھ کی آنے والی نسلیں اسے بھول پائیں گی۔
معاملہ صرف صوبے کی دو تین بڑے سیاسی جماعتوں اور ان کے زیر سایہ متحرک لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا گروہوں کے درمیان خونی مناقشت تک محدود نہیں رہا۔ خود ان کے اپنے اندر بھی جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ الطاف حسین نے اپنے سابق رفیق ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے انکشافات سامنے آنے پر خاصے پریشان ہیں۔ انہیں کراچی میں بھی کچھ رفقاءپر پہلا سا اعتماد نہیں رہا۔ باقی کسر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے قرآن سر پر رکھ کر رازوں سے پردہ اٹھانے کی نہایت موثر کوشش نے پوری کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے اندر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور رحمن ملک کے مابین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا وہ تماشا جاری ہے کہ اللہ دے اور بندہ دے۔ پیپلز پارٹی کے زعماءبلکہ زرداری صاحب کے قریب ترین ساتھی آپس میں اعتماد کے بہت بڑے بحران کا شکار ہیں۔ ملک دشمنی کے وہ الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ سن کر روایتی مخالفین بھی شرم محسوس کریں۔ اب ذوالفقار مرزا اکیلے نہیں رہے۔ بلوچستان سے پارٹی کے سینیٹر لشکری رئیسانی بھی ان کے ہمنوا بن گئے ہیں۔ ذوالفقار مرزا کے حق میں اندرون سندھ سے بھی ہمدردی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ زرداری صاحب کو خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔ اسی ہوا کے گھوڑے پر سوار ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے اپنے محسن اور سیاسی پیشوا پر ملک دشمنوں کا ساتھی ہونے کی پھبتی کسی ہے اور ان سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا ہے تو کیا سندھ کارڈ الٹا پڑ گیا ہے اس نے نیا رنگ جمانا شروع کر دیا ہے۔ جناب زرداری ان کے ساتھیوں اور الطاف بھائی جیسے اتحادیوں نے مل کر سندھ کو جس محرومی سے شکار کیا ہے‘ لوگ تادیر اس پر کف افسوس ملیں گے۔