29 مئی 1974ءکو ربوہ (حال چناب نگر) میں جو سانحہ پیش آیا، اس پر پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا۔ ملک کے طول عرض میں قادیانیوں کو غےرمسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا عوامی مطالبہ گونجنے لگا۔ حکومت وقت نے اس تحریک کو ہر ممکن طریقے اور حربے سے دبانے کی بھرپور کوشش کی مگر اسکی ہر ترکیب و تدبیر ناکام و نامراد ٹھہری۔ بالآخر ارباب حکومت کو اس امر کا ادراک ہو گیا کہ اس دینی و عوامی تحریک کے پرجوش سیلاب کے سامنے ان کا وجود خس و خاشاک کی طرح بہہ جائےگا۔ حفظ ماتقدم کے طور پر انہوں نے پوری اسمبلی کو ایک کمیٹی کا درجہ دے کر قادیانیت کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا۔ قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر اور لاہوری جماعت کے سربراہ صدرالدین کو قومی اسمبلی میں طلب کر کے ان پر قادیانی کفریہ عقائد کے حوالے سے تفصیلی جرح کی گئی۔ انہیں صفائی کے تمام مواقع فراہم کئے گئے۔ 13 روز کی جرح کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔ اس کارروائی کے نتیجے میں 7 ستمبر 1974ءکو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے آئینی ترامیم (2) 106 اور (3) 260 کے ذریعے متفقہ طور پر قادیانی جماعت کے دونوں گروہوں (ربوہ گروپ اور لاہوری گروپ) کو غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا اور یوں مسلمانوں کا 90 سالہ مسئلہ آئینی طور پر حل ہوا۔
قادیانی کہتے ہیں یہ ایک یکطرفہ فیصلہ تھا۔ یہ بات لاعلمی اور تعصب پر مبنی ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جمہوری نظام حکومت میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے لیکن قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا فیصلہ شاید دنیا کا واحد اور منفرد واقعہ ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو پارلیمنٹ میں آکر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کےلئے بلایا۔ جہاں اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے اس پر، قادیانی کفریہ عقائد کے حوالہ سے جرح کی۔ مرزا ناصر نے اپنے تمام عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ تاویلات کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا۔ لہٰذا ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے 13 دن کی طویل بحث و تمحیص کے بعد آئین میں ترمیم کرتے ہوئے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دےدیا لیکن قادیانیوں نے حکومت کے فیصلہ کو آج تک تسلیم نہیں کیا بلکہ الٹا وہ مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور انہیں سرکاری مسلمان ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ وہ خود کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور آئین میں دی گئی اپنی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔
قادیانیوں کا یہ کہنا کہ اگر یہ کارروائی شائع ہو جائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہو جائےگا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کارروائی کے نتیجہ میں قومی اسمبلی کا ایک رکن بھی قادیانی نہیں ہوا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے کارروائی کا بائےکاٹ نہیں کیا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے اجلاس سے واک آﺅٹ نہیں کیا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے قادیانیوں کی حمایت نہیں کی۔ اسکے برعکس نہ صرف تمام ارکان نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا بلکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر کی ٹیم میں شامل ایک معروف قادیانی مرزا سلیم اختر چند ہفتوں بعد قادیانیت سے تائب ہو کر مسلمان ہو گیا۔ حالانکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر اپنی پوری ٹیم کے ساتھ مکمل تیاری سے بڑی خوشی سے قومی اسمبلی گیا۔ اسکے اسمبلی کے اندر داخل ہونے کا انداز بڑا فاتحانہ، تکبرانہ اور تمسخرانہ تھا۔اس کا خیال تھا کہ میں تاویلات اور شکوک و شبہات کے ذریعے اراکین اسمبلی کو قائل کر لوں گا، مگر بری طرح ناکام رہا۔ قادیانی قیادت نے قومی اسمبلی کے تمام اراکین میں 180 صفحات پر مشتمل کتاب ”محضرنامہ“ تقسیم کی جس میں اپنے عقائد کی بھرپور ترجمانی کی۔ اس کتاب کے آخری صفحہ پر ”دعا“ کے عنوان سے لکھا ہے: ”دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے معزز ارکان اسمبلی کو ایسا نور فراست عطا فرمائے کہ وہ حق و صداقت پر مبنی ان فیصلوں تک پہنچ جائیں جو قرآن و سنت کے عین مطابق ہوں۔“ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قادیانیوں کی دعا قبول ہوئی تو وہ قومی اسمبلی کا یہ فیصلہ قبول کیوں نہیں کرتے؟ اور اگر دعا قبول نہیں ہوئی تو وہ جھوٹے ہیں۔ قادیانی قومی اسمبلی میں مرزا ناصر کے سوال و جواب پر بڑا فخر کرتے ہیں۔ میرے خیال میں انہیں چاہئے کہ وہ آگے بڑھیں اور مذکورہ روداد خود شائع کر دیں تاکہ اعتراض کی گنجائش باقی نہ رہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کبھی یہ خطرہ مول نہ لیں گے۔ کیونکہ قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر نے قومی اسمبلی میں جرح کے دوران قادیانی مذہب کے تمام کفریہ عقائد کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ دفاع بھی کیا۔ اب بھلا وہ کیسے چاہیں گے کہ تمام مسلمان انکے مخفی عقائد سے آگاہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ سابق اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے ایک سوال پر کہ ”قادیانیوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ روداد شائع ہو جائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہو جائے گا۔“ جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ کارروائی ان کےخلاف جاتی ہے۔ ویسے وہ اپنا شوق پورا کر لیں، ہمیں کیا اعتراض ہے۔ ان دنوں ساری اسمبلی کی کمیٹی بنا دی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ ساری کارروائی سیکرٹ ہوگی تاکہ لوگ اشتعال میں نہ آئیں۔میرے خیال میں اگر یہ کارروائی شائع ہو گئی تو لوگ قادیانیوں کو ماریں گے۔“ (انٹرویو نگار منیر احمد منیر، ایڈیٹر ماہنامہ ”آتش فشاں“ لاہور، مئی 1994ئ)