بھارت کی آبی جارحیت

بھارت کی آبی جارحیت

چاغی کے مقام پر مئی 1998ءمیں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت کو اس امر کا تو یقین آگیا ہے کہ وہ ایٹمی طاقت بن جانے اور امریکہ کی ایٹمی معاونت حاصل کرلینے کے باوجود اب پاکستان کو اپنے ناپاک منصوبوں کے مطابق دو بدو لڑائی میں شکست نہیں دے سکتا تو وہ سازشوں کے ذریعے پاکستان کو برباد پر اتر آیا۔اس کے لئے وہ آبی دہشتگردی کو پاکستان کے خلاف ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر استعما ل کررہا ہے ۔
بھارت کے نئے بلیو پرنٹ میں مقبوضہ کشمیر میں سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے کے 3 دریاو¿ں جہلم، چناب اور سند ھ کے منابع پر ڈیمز بنانے کے منصوبے بھی شامل ہیں اور ان پر تیزی سے عمل اس لئے ہورہا ہے کہ پاکستان کی زرخیز زمینوں کو زرعی پانی سے محروم کرکے ملک کو بنجر بنانے کی یہ بہترین سٹریٹیجی ہے جس کے حصول کیلئے بھارت نے سری نگر میں فوجیں اتار کر کشمیر پر قبضہ کرلیا تھا اور پھر جنرل ضیاءالحق کے دور سیاہ میں پاکستان کو غافل دیکھ کر سیا چن تک دسترس حاصل کرلی تاکہ دنیا کی اس بلند ترین چوٹی پر فوجی چوکیاں قائم کرکے چین اور پاکستان پر چشم نگران قائم رکھی جا سکے۔
1965ءکے سندھ طاس معاہدے کے بعد یہ حقیقت عیاں ہوگئی تھی کہ پاکستان کیلئے بڑے ڈیمز بنا کر پانی کو ذخیرہ کرنا اور زرعی معیشت کو بحال رکھنا ضروری ہے لیکن منگلا اور تربیلا ڈیم کے ساتھ کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع نہ کی گئی اور جنرل ضیاءالحق کے دور میں جب بھارت نے پاکستان کی زراعت کا نمدا کسنا شروع کردیا اور کالاباغ کی تعمیر ناگزیر ہوگئی تو اسے سیاست کی نذر کردیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ زرعی پانی کی کمی کے ساتھ سستی پن بجلی بھی نایاب ہوگئی۔ اب ملک متعدد بحرانوں کا شکار ہے لیکن سب سے بڑا بحران بجلی کا ہے جس کی کمیابی نے ملک کی صنعت و معیشت کو تباہ کردیا ہے اور گھریلو صارفین کو عذاب میں مبتلا کررکھا ہے۔
دوسری طرف بھارت نے دیکھ لیا کہ مقبوضہ کشمیر میں انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی اور جہلم، چناب اور سندھ کی آبی شاہراہوں پر ڈیمز کی تعمیر اس کے سیاسی مقاصد پورے کرنے کتنی معاون ہے اور ان ڈیموں سے فراہم ہونے والی سستی بجلی اس کی معیشت اور صنعت کو کتنا بڑا سہارا دے رہی ہے۔ چنانچہ بھارت نے 330 میگا واٹ ڈل ہستی ڈیم بنایاتو اس کے ساتھ ہی 350 میگا واٹ کا بگلیہار ڈیم بھی تعمیر کرلیا۔ اطلاعات کے مطابق 850 میگا واٹ کا ریٹل ڈیم اس وقت زیر تعمیر ہے جبکہ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے مقام پر دریائے جہلم سے ملنے والے دریائے نیلم کی دو شاخوں پر اری I اور اری II نام کے ہائیڈل پاور اسٹیشن مکمل کرلئے گئے ہیں اور کشن گنگا ہائیڈرو پاور کی تکمیل پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ دریائے سندھ کے مقبوضہ کشمیری علاقے میں نموباز گو ہائیڈل پاور اور چھٹاک پن بجلی گھر مکمل ہوچکے ہیں۔ یہ سب پاکستان کو زرعی پانی سے اورسستی بجلی سے محروم کرنے کے آبی جارحیت کے نمونے ہیں جن پر پاکستان میں کسی نمایاں احتجاج کی آواز سنائی دیتی۔
اس مجرمانہ خاموشی کی ایک اور خوفناک صورت اب یہ سامنے آئی ہے کہ بھارت نے پکل دل ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ کیلئے ٹنڈر جاری کردیئے ہیں۔ یہ پاور پلانٹ دریائے چناب پر تعمیر کیا جائیگا اور بگلیہار ڈیم سے 5 گناہ بڑا ہوگا۔ مزید برآں چناب دہلی پاور پراجیکٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کو جو ایک غیر ملکی کمپنی ہے ٹھیکہ دیا گیا ہے کہ وہ 2120 میگا واٹ طاقت کے 2 پاور پراجیکٹ کیرو اور کوار کے مقام پر زیر تحقیق لائے اور ان کے نقشہ جات اور فیزیبلٹی رپورٹس تیار کرے۔ پکل ڈل جس کی تعمیر اگست 2013 میں جنگی بنیادوں پر شروع کی جارہی ہے صرف 4 سال کے عرصے میں مکمل کیا جائے گا۔ ڈیمز کے ایک پاکستانی ماہر ارشد حسین عباسی سے جب پکل ڈیم کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس ڈیم کی تعمیر سے دریائے چناب کے قدرتی بہاو¿ میں زبردست رکاوٹ پیدا ہوجائے گی اور اس کے براہ راست قبیح ترین اثرات پنجاب کی زرعی زمینوں پر پڑیں گے جو چناب سے نکلنے والی 2 نہروں سے سیراب ہوتی ہیں۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ پکل ڈیم کا ڈیزائن 1960 کے سندھ طاس کے معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پکل ڈل ڈیم کے اس منصوبے پر حکومت پاکستان اور انڈس واٹر کمشن خاموش ہیں۔ جبکہ بھارت اس خاموشی میں پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبوں پر تیزی سے عمل کررہا ہے اور افسوس ناک حقیقت یہ بھی سامنے آچکی ہے کہ ماضی میں انڈس واٹر ٹریٹی کے ایک کمشنر نے بھارت کے اسی قسم کے ایک منصوبے کی تکمیل کے دوران چشم پوشی سے کام لیا اور جب حقیقت منکشف ہوگئی تو ملک سے فرار اختیار کرگئے۔
عالمی سطح پر ایک عرصے سے یہ انتباہ کیا جارہا ہے کہ آئندہ جنگیں زرعی پانی کے مسئلہ پر ہوں گی لیکن بھارت نے پاکستان کے خلاف یہ جنگ 60 کی دہائی سے شروع کررکھی اور دریائی پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے ۔اب پاکستان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بھارت کے ساتھ کسی اور مسئلے کو زیر بحث لانے کی بجائے سب سے پہلے کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے اسے میز پر لائے، پانی کا مسئلہ بھی کشمیر کے مسئلے سے ہی منسلک ہے اور اسے سب سے پہلے حل ہونا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن