ملک اور جمہوریت کی خاطر درگزر کرتا ہوں‘ الزامات کی غیر جانبدار ججوں سے تحقیقات کرائی جائے: نثار

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی،خبرنگار خصوصی، بی بی سی) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن کے عائد کردہ الزامات کی تحقیقات کیلئے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل تین رکنی کمشن بنانے کی پیشکش کردی۔ انہوں نے کہا میڈیا 3 ججوں کے نام تجویز کرے جن کے بارے میں میری رضامندی بھی شامل ہو۔ اعتزاز احسن کے الزامات کو ایف آئی آر تصور کرکے کمیشن بنایا جائے۔ اعتزازاحسن نے جو کچھ میرے بارے میں کہا ہے اور جو میں نے اعتزاز کے بارے میں باتیں کی ہیں، یہ سب ریکارڈ کاحصہ ہے۔ میں اعتزاز کے جواب کا انتظار کروں گا جو الزام مجھ پر لگائے گئے ہیں اگر ان میں سے ایک فیصد بھی ثابت ہوجائے تو میں وزارت سے ہی نہیں سیاست سے مستعفی ہوجائونگا۔ انہوں نے یہ بات ہفتہ کی شام پنجاب ہائوس میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ اپنی عزتِ نفس کو ایک طرف رکھ کرمعاملے سے درگزرکررہا ہوں، قوم کے سامنے واضح ہونا چاہئے کہ کون سچ بول رہا ہے اورکون جھوٹ؟ وزیراعظم سے درخواست کی تھی کہ وزارت سے استعفیٰ دیکر پریس کانفرنس کرنا چاہتا ہوں یا تین ماہ پارلیمنٹ میں نہیں آؤں گا۔ وزیراعظم نے اس سے اتفاق نہیں کیا، پارلیمنٹ میں جس طرح میرے خلاف کہا گیا اسکی پارلیمانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں کسی کا قرض نہیں چھوڑتا، جس علاقے سے میرا تعلق ہے وہاں قرض چکانا بھلایا نہیں جاتا۔ شریف برادران کے سامنے انکا سب سے بڑا نقاد ہوں تاہم انکی پیٹھ کے پیچھے انکا سب سے بڑا حمایتی ہوں۔ نثار علی خان نے کہا کہ واضح کردوں شاید اپنی زندگی میں سینکڑوں پریس کانفرنس کی ہوں گی، یہ زندگی کی مختصر ترین پریس کانفرنس ہو گی جس پر کوئی  سوال لوں گا اور نہ ہی اسکے علاوہ کوئی بات کروں گا صرف ایک نکتہ پر بات کروں گا۔ پاکستان کے سیاسی اور جمہوری مستقبل کے حوالے سے پارلیمنٹ تاریخی بحث کر رہی تھی اور یہ تاریخی بحث ایک طرف رہ گئی  اور موضوع بحث میں بن گیا۔ میرے اور میرے خاندان اور مرحوم بھائی کے بارے میں جو کہا گیا اسکا جواب دینے کا پورا حق تھا۔ مجھ پر یا پارٹی پر حملہ کریگا اسکا جواب ضرور دیتا ہوں۔ میں نے جو بیان دیا وہ اپنے اوپر ہونیوالے بیان کے ردعمل میں دیا تھا، یہ جمہوری اور پارلیمانی طریقہ کار کا حصہ ہے میں نے کونسا گناہ اور قصور کردیا تھا۔ مجھ پر ذاتی حملہ ہوا اور سپریم کورٹ سے باہر نکلتے ہوئے اعتزاز احسن نے میرے بارے میں بات کی تھی اور گزشتہ کئی دنوں سے بار بار مجھے ٹارگٹ کیا جا رہا تھا مگر میں نے نظرانداز کیا۔ پارلیمنٹ کے باہر نوک جھونک ہوتی رہتی ہے اسکو سب جانتے ہیں، میں نے اپوزیشن پر تنقید کی اور نہ ہی پیپلز پارٹی کو نشانہ بنایا ۔ ایک شخص کے بارے میں بات کی تو پارلیمنٹ میں میرے خلاف طوفان برپا کردیا گیا۔ مجھے پارٹی پچھلے 30 گھنٹے سے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے قائل کرتی رہی، میں نے ساری زندگی سیاست عزت کیلئے کی۔ میں گناہ گار شخص ہوں میرا ضمیر مفاد کے سامنے تابع نہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسولؐ کے حکم کے تابع ہوں، میں غلطیاں کرسکتا ہوں جس دن اپنے ضمیر کے خلاف فیصلہ کیا وہ  دنیا میں میری زندگی کا آخری دن ہو۔ گزشتہ 30 گھنٹوں میں کرب سے گزرا ہوں، ایک طرف میری عزتِ نفس کا معاملہ ہے اگر عزت نہ رہی سیاست میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھ پر کھلے عام الزام لگایا گیا ۔ پارلیمنٹ میں اس شرط کے ساتھ بات نہیں کی کہ پریس کانفرنس کروں گا ۔ پوری پارٹی نے منت سماجت کی، مجھے پورے پاکستان سے پیغام آئے کہ صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں کیونکہ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت ایک فیصلہ کن اور نازک موڑ سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف عزتِ نفس اور دوسری طرف ملک کا مستقبل تھا۔ پھر فیصلہ کیا جس طرح وزیر اعظم اور پارٹی قیادت چاہتی ہے اور دیگر پارلیمانی پارٹیاں چاہتی ہیں انکی درخواست کو قبول کرلیا ہے ۔ سوچا تھا کہ کل جو واقعات ہوئے انکو درگزر کردوں مگرمیرے ساتھ جو کچھ ہوا اسکا جواب نہ دوں تو تشفی نہیں ہوگی۔ مجھے گالی گلوچ سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی، اس دن شرمندہ ہوں گا جب میرا ضمیر مجھے ملامت کریگا۔ میں نے حرام کی طرف کبھی نہیں دیکھا۔ قومی دولت کا ہمیشہ تحفظ کیا۔ ایک روایت پڑنی چاہئے کہ باہر کے جھگڑوں کو پارلیمنٹ میں نہیں آنا چاہئے۔ میں ملک اور جمہوریت کی خاطر اپنی انا کو اور سوچ کو ایک طرف رکھ کر درگزر کرتا ہوں کیونکہ پاکستان کا مستقبل اہم ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...