ٓٓ جنھوں نے اپنے آج ہمارے کل کے لیے قربان کیے

مکرمی :6سمتبر 1965کو جب بھارت نے افواج ِ پاکستان اور پاکستانی عوام کو رات کی تاریکی میں للکارتے ہوئے حملہ کیا تو اُسوقت وہ یہ بھول چُکے تھے کہ وہ کس قوم پہ حملہ کر بیٹھے ہیں وہ یہ بھول چُکے تھے کہ وہ کس قوم کو للکار بیٹھے ہیں وہ یہ بھول چُکے تھے کہ ہم ایک جیتی جاگتی قوم ہیں جو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے عادی ہیں ۔بھارتی جتنی تیزی سے آئے تھے انکے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستانی عوام اتنی تیزی سے مقابلے میں آجائے گیاور انھیں منہ کی کھانی پڑے گی پاکستانی عوام نے افواج ِ پاکستان کے ساتھ متحد ہو کر تاریخ کی وہ عظیم الشان مثال قائم کی جو تاریخ میں سُنہری حروف سے لکھی گئی ۔آج تک دنیا میں کسی بھی قوم کو خون بہائے بغیر آزادی نہیں ملی اور کوئی بھی بڑی تحریک قربانیوں کے بغیر کامیاب نہیں ہوتی۔ جس قوم میں اقبالؒ کے شاہین جیسے نوجوان اور قائد کی اُمیدوں کے پروانے جگمگارہے ہوں©©‘جس مٹی میں شہیدوں کا خون شامل ہو اور جو قوم غازیوں کی قربانی‘ عزم اور دلیری کی عکاس ہوںبھلا اس قوم کو کون سپردِخاک کر سکتا ہے۔خیر اور شر کی جنگ ازل سے جاری ہے اور یہ جنگ تب تک پایہءتکمیل تک نہیں پہنچتی جب تک خیر غالب نہیں آجاتا۔کامیاب اور سمجھ دار قومیں اپنے خون کو ضائع نہیں جانے دیتیںبلکہ اُسکی بقاءکی ضامن بنتی ہیں۔اپنی تلواروں کو دشمن کے خون سے آلودہ کر کہ دنیا کو بتاتی ہیںکہ آج بھی ہماری فوج میں ایسے نوجوان ہیں جو قوم پہ مر مٹنے کو تیار ہیں ۔قومیں قربانیاں مانگتی ہیں تن ‘من‘دھن کی قربانی ‘ ماوئں کے لختِ جگر کی قربانی‘باپ سے اُسکے بڑھاپے کی قربانی‘ بیویوں سے اُسکے سُہاگ کی قربانی‘بہنوں سے اُسکے بھائیوں کی قربانی‘قربانی کے نام پر تاریخ رقم کرنا تو یقینا دلچسپ ہوتا ہے لیکن جو کچھ اُن لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے وہ ہمیشہ کے لیئے ایک اذیت ناک باب بن کر رہ جاتا ہے۔جنگ کبھی بھی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبوں سے جیتی ہے۔انقلاب کا نعرہ اور آزادی کی باتیں تو بڑی خوش کُن ہوتی ہیںلیکن مزہ تو تب ہے جب اُس پہ عمل کیا جائے (کلثوم علی حسن ابدال)

ای پیپر دی نیشن