دور جدید کے پنجاب میں جن بزرگوں نے صوفیانہ دانش و عمل کی شمع فروزاں رکھی ان میں ہمارے موجودہ نکتہ نظر کے اعتبار سے پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی ؒممتاز ترین ہیں۔ وہ خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلیفہ تھے ۔ یوں ان کا تعلق احیائے تصوف کی اس درخشندہ روایت سے بنتا ہے جس کی داغ بیل خواجہ نور محمد مہاروی نے رکھی اور جسے شاہ محمد سلیمان تونسوی اور خواجہ شمس الدین سیالوی نے رونق بخشی تھی۔پیر سید مہر علی شاہ بن سید نذر دین شاہ بن غلام حیدر شاہ بن سید روشن دین یکم رمضان 1275ھ/14 اپریل1859ءکو گولڑہ شریف اسلام آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کا سلسلہ نسب 25ویں پشت میں شاہ عبدالقادر جیلانی بغدادیؒ سے جا ملتا ہے۔ ان کی نانی حضرت سید جلال الدین بخاری اوچی کی اولاد میں سے تھیں۔ پیر سید مہر علی ؒکے اجداد میں سے سید روشن دین پہلے شخص تھے جنہوں نے گولڑہ شریف میں سکونت اختیار کی۔پیر سید مہر علی شاہ ؒکے خاندان میں علم و عمل کی اچھی روایات چلی آ رہی تھیں۔ انہوں نے مقامی مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ غلام محی الدین ہزاروی سے درس نظامی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں ۔ اس کے بعد بھوئی (ضلع راولپنڈی) جا کر مولانا محمد شفیع کے درس میں شامل ہوئے اور دو سال ان کی خدمت میں رہ کر صرف و نحو کی متوسط کتب اور منطق میں ”قطبی“ پڑھی یہاں سے انگہ (ضلع سرگودھا) گئے اور مولانا سلطان محمود سے استفادہ کیا۔ راستے میں میکھی ڈھوک (ضلع اٹک) رکے مگر مولانا محمد سلطان کی کشش اس قدر غالب تھی کہ یہاں قیام نہ کیا۔ انگہ میں اڑھائی سال مقیم رہے اور درس نظامی کی اکثر و بیشتر کتابیں پڑھیں۔ 1290ھ 1873-74ءکے وسط ہند کا سفر کیا۔ مولانا احمد حسن کانپوری (م۔1322ھ) سے استفادہ کے لئے کانپور حاضر ہوئے مگر وہ سفر حج کے لئے پا برکاب تھے۔ اس لئے کانپور سے علی گڑھ چلے گئے جہاں مولانا لطف اﷲ علی
گڑھ (1334ھ) کی مسند تدریس سجی ہوئی تھی۔ مولانا لطف اﷲ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کر کے ریاضی کے مکتب عالیہ کا درس لیا۔ ڈھائی سال کے بعد مولانا احمد علی محدث سہارنپوری کے پاس حاضر ہوئے اور ال صحیحین کا درس لیا اور (1295ھ/1878ء)میں ان سے سند حدیث حاصل کی۔ اس طرح بیس سال کی عمر میں علوم متداولہ کی تحصیل ہوئی۔ سید گولڑوی ؒکے سوانح نگار مولانا فیض احمد فیض لکھتے ہیں: ”حضرت قبلہ عالم قدس سرہ (سید مہر علی) جب مولانا حمد علی سہارنپوری کی خدمت میں پہنچے تو انہوں نے آپ کو اپنے درس میں داخل کرنے سے عذر کیا اور کہا کہ کتب حدیث کے تمام نسخے ختم ہو چکے ہیں اس لئے آپ کسی دوسری جگہ جا کر حدیث پڑھیں۔ حضرت حیران ہوئے اور دیگر طلباءبھی متعجب ہوئے کیونکہ اس قسم کا جواب مولانا کی عادت اور معمول کے قطعاً خلاف تھا ۔ تجسس پر معلوم ہوا کہ حضرت کے سہارنپور پہنچنے سے قبل علی گڑھ والے پٹھان طالب علم محمود نے انتقام لینے کی خاطر ایک خط مولانا کو لکھ دیا تھا کہ اس نام اور اس حلیہ کا ایک طالب علم آپ کے پاس حدیث پڑھنے آ رہا ہے۔ اسے حصول علم کا شوق کم اور طلباءو استاد کو تنگ کرنے اور فتنہ و فساد برپا کرنے کا اشتیاق زیادہ ہے لہذا اس کا آپ کے درس میں داخلہ شر و فساد کا باعث ہو گا۔ اس اطلاع سے متاثر ہو کر مولانا نے حضرت کو اجازت شمولیت درس دینے سے اجتناب کیا ۔ حضرت نے اس کی تردید کا تو کوئی اقدام نہ کیا البتہ مودبانہ اصرار سے مولانا سے سبق میں شامل ہونے کی اجازت حاصل کر لی لیکن مولانا آپ کے سبق پڑھنے کی نوبت نہ آنے دیتے تھے کہ خود ہی بددل ہو کر چلا جائے گا۔ آپ نے صبر و استقلال سے کام لیا اور آہستہ آہستہ سبق دہرانے کے اوقات میں آپ کے اخلاقِ عالیہ اور ذہانت کا علم تمام طلباءکو ہو گیا جنہوں نے یہ کوائف حضرت مولانا کی خدمت میں عرض کرکے کہا کہ ایسے شخص کے خلاف ایسی شکایت سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ چنانچہ ایک روز آپ کے سبق پڑھنے کی نوبت بھی آ گئی تو مولانا آپ کی قابلیت دیکھ کر دنگ رہ گئے اور ان کو یقین ہو گیا کہ شکایت واقعی بے جا تھی۔“پیر سید مہر علی شاہ ؒکے استاد گرامی مولانا سلطان محمود انگوی ،حضرت مولانا شمس الدین سیالوی کے مرید خاص تھے۔ ان کے توسط سے پیر صاحب نے بھی حضرت سیالوی کے ہاتھ پر سلسلہ چشتیہ میں بیعت کی اور خلافت اجازت سے مشرف ہوئے۔علوم مروجہ کی تحصیل سے فارغ ہوئے تو سیر و سیاحت کے لئے وطن سے نکل کھڑے ہوئے۔ تین چار سال لاہور میں مقیم رہے ان کا قیام حافظ محمد دین (کشمیری بازار) کے ہاں تھا۔ زیادہ وقت دریائے راوی کے کنارے ریاضت و عبادت میں گزارتے تھے یا شیخ الٰہی بخش کتب فروش کی دکان پر گزرتا تھا۔ ان کی علمی وجاہت کے پیش نظر انجمن نعمانیہ لاہور نے ان کی خدمات مدرسہ نعمانیہ کے لئے حاصل کرنے کی کوشش کی۔1301ھ/1883-84ء میں انہوں نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ طلباءشاہی مسجد لاہور کے حجروں میں رہتے تھے اور وہ درس کے لئے مسجد میں حاضر ہو جاتے تھے قیام لاہور کے بعد مالیر کوٹلہ ملتان، مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے اضلاع کے سفر کئے۔ اسی زمانے میں اجمیر شریف بھی گئے۔ 1307ھ/1890ءمیں حرمین شریفین کی زیارت کے لئے گئے تو حضرت خواجہ عبدالرحمٰن چھوہروی قدس سرہ آپ کے ہمراہ تھے۔ مکہ مکرمہ میں مولانا رحمت اﷲ مہاجر مکیٰؒ بانی مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ سے ملاقات ہوئی تو وہ آپ کے علم و فضل سے بہت متاثر ہوئے ۔ مولانا محمد غازی ؒ نائب مدرس مدرسہ صولتیہ آپ کے فضل و کمال سے اتنے گرویدہ ہوئے کہ ہمیشہ کے لئے گولڑہ شریف آ گئے۔حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی کی خدمت میں حاضر ہوئے ،اس وقت وہ مثنوی شریف کا درس دے رہے تھے ۔ ایک شخص مثنوی شریف کے ایک شعر کے بارے میں تشفی حاصل کرنا چاہتا تھا حضرت حاجی صاحب کی اجازت سے حضرت پیر صاحب نے اس شعر کی ایسی عارفانہ تقریر کی کہ حاجی صاحب وجد میں آ گئے اور سلسلہ چشتیہ صابریہ میں اجازت سے نوازا۔ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی ؒخود فرماتے ہیں: (جاری ہے)
”بوقت زیارت بیت اﷲ کے حاجی امداد اﷲ صاحب کہ اہل کشف و کرامت تھے خود ہی نعمت باطنی بخشنے کو اس عاجز کی طرف متوجہ ہوئے ۔ ہمارے دل میں خیال آیا کہ جو چہرہ ہم نے دیکھا ہے وہ جہان میں نظر نہیں آتا ۔ ان کے کمال اصرار کے بعد کہا گیا کہ ہم کو تو حاجت نہیں لیکن آپ کی عنایت بھی جو آپ کی رضامندی سے ہے غیر مشکور نہیں اور نیز یہ عنایت بھی ہم اپنے شیخ کی جانب سے جانتے ہیں۔ بعدہ انہوں نے سلسلہ صابریہ اکرام فرمایا“۔حضرت پیر صاحب چاہتے تھے کہ حرمین طیبین میں قیام کیا جائے۔ حضرت حاجی صاحب نے بتاکید مراجعت کا حکم دیا اور فرمایا۔”ہندوستان میں عنقریب فتنہ برپا ہونے والا ہے۔ لہذا تم ضرور اپنے ملک ہندوستان میں واپس چلے جاﺅ۔ بالفرض اگر آپ ہند میں خاموش ہو کر بیٹھ بھی جائیں گے تو پھر بھی وہ فتنہ ترقی نہ کر سکے گا ۔پس ہم حضرت حاجی صاحب کے اس کشف کو اپنے یقین کی روح سے مرزا قادیانی کے فتنہ سے تعبیر کرتے ہیں“۔
پیر صاحب نے مرزا قادیانی کے فتنے کی روک تھام کے لئے سخنے، قدمے اور قلمے کام کیا۔ انہوں نے 1317ھ/1899-1900ءمیں ایک رسالہ ”شمس الہدایت فی ثبات حیات المسیح“ لکھا۔ انکی یہ کوشش بہت پسند کی گئی ۔ مولانا عبدالجبار غزنوی (م 1331 ھ ) نے پیر صاحب کو لکھا: ”کتاب شمس الہدایت در رد ملاحدہ دہر و زنادقہ عصر خذلہم اﷲ از نظر احقر گزشت۔ از مطالعہ وعظ وافرد خیر ظاہر برداشتم“
مرزا صاحب نے کتاب کا کوئی جواب دینے کی بجائے 22 جولائی 1900ئ/23 ربیع الاول 1318ھ کو ایک طویل اشتہار چھاپ دیا اور پیر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے عربی زبان میں تفسیر نویسی کا چیلنج داغ دیا۔پیر صاحب نے چیلنج قبول کرتے ہوئے لکھا کہ مرزا صاحب علماءصوفیاءکو دعوت دیتے رہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ علماءسے اپنے دعویٰ اور عقائد پر گفتگو کریں اور اگر وہ عربی زبان میں رہ کر مہارت دکھلانے پر بضد ہیں تو اس کے لئے بھی حاضر ہیں۔ اشتہار بازی کے بعد 25 اگست 1900ءکو شاہی مسجد لاہور میں مناظرہ طے پایا۔ پیر صاحب اور دوسرے علماءشاہی مسجد میں وقت مقررہ پر پہنچ گئے مگر مرزا صاحب نے راہ فرار اختیار کی۔ اس کے بعد مرزا صاحب نے تفسیر سورة فاتحہ (اعجاز المسیح) شائع کر کے اپنی بات رکھنے کی کوشش کی مگر پیر صاحب نے ”سیف چشتیائی“میں مرزا کی عربی دانی کی قلعی کھول دی ۔ پیر صاحب نے صرف و نحو، لغت، بلاغت، معانی اور منطق کے قواعد کی رُو سے ”اعجاز المسیح“ کی اغلاط گنائی ہیں نیز سرقہ، تحریف اور التباس کے تقریباً ایک فی صد اعتراضات کئے ہیں جو آج تک قائم ہیں۔ ”سیف چشتیائی“ کے بارے میں مولانا اشرف علی تھانویؒ (1362 ھ) نے اپنی تفسیر ”بیان القرآن“ (زیر سورة النسائ، آیت 157) میں لکھا ہے کہ حیات و موت عیسوی کی بحث میں کتاب سیف چشتیائی قابل مطالعہ ہے ۔ اسی طرح مولانا محمد انور شاہ کاشمیری نے اپنی تصنیف عقیدة الاسلام فی حیثیت عیسیٰ علیہ السلام کے دیباچہ میں اس کی تعریف کی ہے۔
پیر سید مہر علی شاہ ؒنے مولانا عبدالاحد خانپوری کے ساتھ بعض مسائل میں اختلاف کیا اور دونوں طرف سے رسالہ بازی ہوئی ۔ نذر و نیاز، سماع موتیٰ، استمراد وغیرہ ان رسائل کے موضوعات تھے۔
پیر صاحب صوفی صافی اور فلسفہ وحدت الوجود پر گہری نظر رکھتے تھے۔ شیخ اکبر ابن عربی (م 638 ھ) کے رمز شناس تھے۔ علامہ اقبال نے بھی اس مسئلے کے لئے ان کی طرف رجوع کیا۔ انہیں ایک خط میں لکھتے ہیں:
”مخدوم و مکرم حضرت قبلہ ۔ السلام علیکم! اگرچہ زیارت اور استفادہ کا شوق ایک مدت سے ہے تاہم اس سے پہلے شرف نیاز حاصل نہیں ہوا۔ اب اس محرومی کی تلافی اس عریضہ سے کرتا ہوں۔ گو مجھے اندیشہ ہے کہ اس خط کا جواب لکھنے یا لکھوانے میں جناب کو زحمت ہو گی۔ بہرحال جناب کی وسعت اخلاق پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ چند سطور لکھنے کی جرا¿ت کرتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان بھر میں کوئی اور دروازہ نہیں جو پیش نظر مقصد کے لئے کھٹکھٹایا جائے۔میں نے گزشتہ سال انگلستان میں حضرت مجدد الف ثانیؒ پر ایک تقریر کی تھی جو وہاں کے ادا شناس لوگوں میں بہت مقبول ہوئی۔ اب پھر ادھر جانے کا قصد ہے اور اس سفر میں حضرت محی الدین ابن عربی پر کچھ کہنے کا ارادہ ہے ۔ نظر بایں حال چند امور دریافت طلب ہیں۔ جناب کے اخلاق کریمانہ سے بعید نہ ہو گا اگر ان سوالات کا جواب شافی مرحمت فرمایا جائے۔
۱۔ اول یہ کہ حضرت شیخ اکبر نے تعلیم حقیقت زمان کے متعلق کیا کہا ہے اور دیگر متکلمین سے کہاں تک مختلف ہے۔
۲۔ یہ تعلیم شیخ اکبر کی کون کون سی کتب میں پائی جاتی ہے اور کہاں کہاں ۔ اس سوال کا مقصود یہ ہے کہ سوال اول کے جواب کی روشنی میں خود بھی ان مقدمات کا مطالعہ کر سکوں۔
۳۔ حضرات صوفیہ میں اگر کسی بزرگ نے بھی حقیقت زمان پر بحث کی ہو تو ان بزرگ کے ارشادات کے نشان بھی مطلوب ہیں۔ مولوی سید انور شاہ مرحوم و مغفور نے مجھے عراق کا ایک رسالہ مرحمت فرمایا تھا۔ اس کا نام درایتہ الزمان۔ جناب کو ضرور اس کا علم ہو گا ۔ میں نے یہ رسالہ دیکھا ہے مگر چونکہ یہ رسالہ بہت مختصر ہے اس لئے مزید روشنی کی ضرورت ہے اس لئے مجھے یہ عریضہ لکھنے میں تامل تھا لیکن چونکہ مقصود خدمت اسلام ہے مجھے یقین ہے کہ اس تصدیعہ کے لئے جناب مجھے معاف فرمائیں گے اور جواب باصواب سے ممنون فرمائیں گے۔ باقی التماس دعا۔“
پیر صاحب 29 صفر 1356ھ/11 مئی1937ءکو فوت ہوئے اور گولڑہ شریف میں دفنائے گئے۔ ان سے حسب ذیل کتب یادگار ہیں۔۱۔تحقیق الحق کلمة الحق (فارسی 1315ھ) ۔شمس الہدایت فی اثبات حیات المسیح (1317ھ) ۔سیف چشتیائی (1319ھ) ۔اعلا کلمة اﷲ فی بیان اہل بہ لغیر اﷲ (1322ھ) ۔الفتوحات الصمدیہ (1325ھ) ۔تصفیہ ما بین سنی و شیعہ۔فتاویٰ مہریہ۔مکتوبات مہریہ۔
پیر صاحب پنجابی اور فارسی میں کبھی کبھی نعتیہ اشعار بھی کہتے تھے اور مہر تخلص استعمال کرتے تھے ۔ ان کی اس پنجابی نعت سے شاید ہی کوئی پنجابی بولنے والا ناآشنا ہو۔
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنائ
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی ؒ شریعت و طریقت کے رہنما تھے ۔ انہوں نے ملکی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ جب تحریک خلافت اٹھی تو آپ نے کسی کی پرواہ کئے بغیر شرعی نقطہ نظر کو وضاحت سے پیش کیا۔ ترکی سلطنت کو خلافت اسلامیہ کا درجہ نہیں دیتے تھے تاہم آپ کی تمام ہمدردیاں ترکی مسلمانوں کے ساتھ تھیں- چنانچہ طرابلس ، بلقان کی جنگ کے موقع پر گھر کے زیورات اور اصطبل کے گھوڑے تک فروخت کر کے قیمت چندہ میں دے دی تھی۔ تحریک ہجرت کے بارے میں فرمایا کہ اس غیر شرعی ہجرت کا نتیجہ خراب نکلے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آپ نے ذبیحہ گاﺅ کی ممانعت کو ناپسندگی کی نظر سے دیکھا ۔ کانگریسی لیڈروں نے جب انگریز سے ترک موالات پر زور دیا تو فرمایا :
”یہود اور مشرکین کی عداوت قرآن شریف میں صراحتہً مذکور ہے ۔ پس ترک موالات ہندو اور انگریز اور یہود سب سے ہونی چاہئے۔ تفریق اور ترجیح بلا مرجع (یعنی انگریز سے مقاطعہ اور ہندو سے دوستی) ٹھیک نہیں ہے۔“ہمارے خاندان میں زیادہ تر پیر مہر علی شاہؒ اور ان کی اولاد میں ہی بیعت لئے ہوئے ہیں۔ پیر مہر علی شاہؒ کے بعد ان کے صاحبزادے پیر سید غلام محی الدین گولڑوی (بابوجی) سے راقم الحروف کے دادا محمد سلطان اور بابوجی کے صاحبزادے شاہ غلام معین الدین بڑے لالہ جی سے راقم کے والد بزرگوار جبکہ ان کے چھوٹے بھائی پیر سیّدشاہ عبدالحق صاحب چھو ٹے لالہ جی سے راقم بیعت لئے ہوئے ہے۔پیر سید شاہ عبدالحق گیلانی سجادہ نشین دربار عالیہ گولڑہ شریف کی زیر صدارت 116 ویں سالانہ عالمی خاتم النبیین کانفرنس 25 اگست2016 ءکو منعقد ہوئی جس میں وطن عزیز کی معروف خانقاہوں کے سجادگان، مشائخ، علمائ، دانشور اور علمی و روحانی شخصیات کی کثیر تعداد نے شرکت فرمائی اور پیر سید مہر علی شاہ کی 25 اگست 1900 ءمیں تحفظ ختم نبوت کے تاریخی کردار کو اُجاگر کیا گیا اور ان کی مساعی جمیلہ کی بدولت 1937 ءمیں بہاولپورکی عدالت عالیہ نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا تھا ۔ بعد میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں پارلیمنٹ سے اقلیت قرار دیا تھا