لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے ایل ایل بی کے پانچ سالہ پروگرام اور عمر کی حد کی پابندی کیخلاف درخواست کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی سمیت سرکاری یونیورسٹیوں نے ایسے لاءکالجز کے الحاق کی بھی منظوری دے رکھی ہے جو دکانوں اور گھروں کے گیراجوں میں کھلے ہوئے ہیں۔ سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے ایل ایل بی کے پانچ سالہ پروگرام اور عمر کی حد کی پابندی کیخلاف درخواست کی سماعت کی۔ درخواست گزاروں کے وکلاءنے موقف اختیار کیا کہ پاکستان بار کونسل کے رولز کی روشنی میں سرکاری یونیورسٹیوں نے ایل ایل بی کا تین سالہ پروگرام منسوخ کر کے پانچ سالہ پروگرام متعارف کرایا جس پر فوری طور پر عملدرآمد کر تے ہوئے داخلے بھی شروع کر دئیے ہیں۔ اس اقدام سے ایسے ہزاروں طلبہ کا تعلیمی مستقبل داﺅ پر لگ گیا ہے جنہوں نے رواں سال ہی گریجوایشن مکمل کی یا پہلے ہی گریجوایشن مکمل کر چکے ہیں، انہوں نے مزید موقف اختیار کیا کہ نئے پروگرام کے تحت ایل ایل بی میں داخلے کیلئے عمر کی حد بھی مقرر کر دی گئی ہے جو غیرقانونی اور غیرآئینی اقدام ہے، انہوں نے استدعا کی کہ ایل ایل بی کا پانچ سالہ پروگرام اور داخلے کیلئے عمر کی حد کی پابندی کالعدم کی جائے۔ ممبر پاکستان بار کونسل اعظم نذیر تارڑ اور مقصود بٹر نے موقف اختیار کیا کہ یہ رولز اس لئے بنائے تھے کہ قانون کی تعلیم میں معیار پیدا ہو سکے تاہم ان رولز کے نفاذ کے بعد بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ یہ رولز اس لئے بنائے گئے کیونکہ گلی محلوں میں لاءکالجز کھلنا شروع ہو گئے تھے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ ایسے کالجز کو سرکاری یونیورسٹیاں الحاق کیسے کرتی ہیں تاہم سرکاری وکلاءتسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ انیس ستمبر تک پنجاب بھر میں سرکاری یونیورسٹیوں کے ساتھ الحاق شدہ لاءکالجز کی تفصیلات عدالت میں پیش کی جائیں۔ یہ بھی بتایا جائے کہ قواعد وضوابط اور میرٹ پر پورا نہ اترنے والے لاءکالجز کو پنجاب یورسٹی سمیت دیگر سرکاری یونیورسٹیوں نے الحاق کیسے دے رکھا ہے۔
ہائیکورٹ لا کالجز