”سی پیک قومی منصوبہ“ پر سیاست نہیں ہونی چاہئے

2002ءمیں پاکستان اور چین کے درمیان پاکستانی صوبہ بلوچستان کے ساحل گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر کا معاہدہ ہوا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ 2 دوست ممالک کے درمیان طے پانے والا یہ معاہدہ مستقبل میں عالمی سطح پر ایک اہم پروجیکٹ کے طور پر مشہور ہو کر خطے کے بہت سے ممالک کی معاشی ضرورت بن جائےگا اور اسکی بین الاقوامی اہمیت کے پیش نظر بھارت حواس باختہ ہو کر پاکستان کی سلامتی کے درپے ہو گا۔ سازشوں کے ذریعے پاکستان میں تخریب کاری و دہشت گردی کو فروغ دےگا اور پاکستان کو دھمکیاں دینے پر اتر آئےگا۔ گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر درحقیقت پاکستان اور چین کے درمیان چینی صوبے سنکیانگ سے لیکر پاکستان میں بلوچستان تک مستقبل میں تعمیر کی جانےوالی عظیم تجارتی راہداری کا ایک ذیلی منصوبہ تھا جس پر چین اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا آغاز پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہو گیا۔ کاشغر سے گوادر تک تجارتی شاہراہ کے زمینی سروے میں راستے میں آنےوالے پہاڑ و دیگر رکاوٹوں‘ دریاوں کے اوپر سے راہداری گزارنے سے گریز‘ اسکی وجوہات‘ سرنگوں و کٹائی کےلئے پہاڑوں کی نشاندہی جیسے کام تیزی سے جاری تھے۔ گو چین اور پاکستان دونوں ملکوں میں ذرائع ابلاغ کو اصل پروجیکٹ کے خدوخال سے بے خبر رکھا گیا تھا لیکن گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر کے معاہدے اور فوری کام کی شروعات سے پاکستان دشمنوں خصوصاً بھارت کو سمجھ آ گئی کہ گوادر میں بندرگاہ ”آس برگ“ کی طرح محض سامنے نظر آنیوالا حصہ ہے حقیقی منصوبہ کہیں زیادہ بڑا اور بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ پشاور اور کوہاٹ کے درمیان ”کوہاٹ پاس“ کے پہاڑوں میں جاپان کے تعاون اور امداد سے تعمیر ہونے والی تقریباً 2 کلومیٹر طویل سرنگ کی تعمیر بھی ظاہر کر رہی تھی کہ اگر چین گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر برق رفتاری سے کر رہا ہے تو وہاں سے چین تک رسائی کا امکانی راستہ کیا ہو گا۔ گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر کو متنازعہ بنانے اور پورے امکانی منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنے کےلئے بھارت نے تخریب کاری و دہشتگردی کے مختلف منصوبے تیار کئے جو پاکستان کے مختلف صوبوں میں وہاں پائے جانےوالے صوبائی تعصبات و تحفظات اور مذہبی رجحانات کے قریب تر تھے۔ بلوچستان میں بلوچوں کی پسماندگی کو ہوا دے کر بندرگاہ کےخلاف زبانی کلامی احتجاج و بیانات سے کام کا آغاز کیا گیا کہ پنجابی سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ مل کر گوادر کی شکل میں بلوچوں کے حقوق سلب کرنا چاہتی ہے اور اس احتجاج کے لئے ان بلوچ سرداروں کا انتخاب کیا گیا جو صدیوں سے بلوچوں کا استحصال کرتے چلے آرہے تھے۔ جنہوں نے بلوچ عوام کی سوچوں پر بھی پہرے بٹھا رکھے تھے۔پنجاب کو گالی دیکر شروع کئے جانےوالے اس احتجاج میں بعدازاں تشدد کو شامل کر کے بلوچستان میں فوجی تنصیبات‘ سرکاری املاک اور مسافر بردار ریل گاڑیوں‘ بسوں اور فوجی قافلوں پر حملے شروع کر دیئے گئے۔ پاکستان کے بعض نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر بلوچ علیحدگی پسندوں کو پاکستان کیخلاف اپنا موقف بیان کرنے کےلئے خصوصی وقت دیا جانے لگا۔ گوادر میں کام کرنے والے چینی انجینئروں و دیگر ورکرو پر حملے شروع کر دیئے گئے۔ اس صورتحال کو پاکستان دشمنوں نے عالمی میڈیا پر اپنے حقوق کےلئے پاکستان سے ناراض ان بلوچ نوجوانوں کی کارروائی قرار دیا جو پاکستان کے قیام کے بعد سے نسل در نسل اپنی حق تلفیوں پر احتجاج کرتے کرتے تھک چکے تھے اور اب ہتھیار اٹھانے پر مجبور تھے۔

صوبہ خیبر پی کے کے ان قبائلی علاقوں میں جہاں سے تجارتی راہداری کا گزر ہو سکتا تھا وہاں اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر فساد کی شروعات کی گئی۔ قبائلی علاقوں‘ صوبہ خیبر پی کے کے عوام ہی کیا پورے ملک میں اسلام پسندی کے نام پر فساد برپا کرنیوالوں کے موقف کو خوب پذیرائی ملی۔ لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ اسلام کے نام پر دہشتگردی کرنےوالے پاک فوج کے جن سپاہیوں اور افسران کو نشانہ بنا رہے ہیں وہ پابند صوم و صلوٰة ہی نہیں شریعت پر پوری طرح کاربند ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک پر جرنل پرویزمشرف کے برسراقتدار ہونے کی وجہ سے ہمارے دانشوروں اور سیاستدانوں نے بھی فوج پر حملوں کو دہشت گردوں اور فوج کی باہمی لڑائی قرار دے کر حملہ آوروں کے اصل عزائم کو بھانپنے اور حملوں کے اصل مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان سے باہر بیٹھے دہشتگردوں کے اصل سرپرستوں کی مذمت کرنے سے گریز کیا۔ تمام تر رکاوٹوں‘ منفی پروپیگنڈے اور تخریب کاری کی نہ تھمنے والی کارروائیوں کے باوجود چین نے تین سال سے بھی کم وقت میں بندرگاہ کی تعمیر مکمل کر کے پاکستان کے حوالے کر دی لیکن خیبر پی کے و قبائلی علاقوں میں تجارتی شاہراہ کیلئے متعین روٹ کے راستوں میں آنیوالے علاقوں میں دہشت گردی بڑھتی چلی گئی۔ افغانستان میں پاکستانی سرحد سے ملحقہ شہروں میں قائم بھارتی قونصلیٹ پاکستان کےخلاف دہشت گردی و تخریب کاری کرانے کے مراکز میں تبدیل ہو گئے۔ گوادر بندرگاہ یا اس کے ذریعے چین کی بلوچستان کے ساحلوں تک رسائی اکیلے بھارت کو نہیں کھٹک رہی تھی اردگرد کے چند دیگر ممالک بھی گوادر میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو اپنی معیشت کیلئے بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے اسکے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ اسکے باوجود اس منصوبے پر جاری کام تیزی رفتاری سے آگے بڑھتا رہا۔ 2008ءکے بعد بندرگاہ کو سنگاپور کے حوالے کئے جانے کے بعد وہاں ترقیاتی کاموں کی رفتار سست پڑ گئی۔ تاہم 2013 ءکے بعد ناصرف بندرگاہ پر بڑے پیمانے پر تجارتی سرگرمیوں بڑے بحری جہازوں کی آمد پر بار برداری کے انفراسٹرکچر کو مکمل کرنے کیلئے پیش رفت میں اضافہ ہوا‘ ساتھ ہی تجارتی شاہراہ کی تعمیر کا آغاز بھی کر دیا گیا۔ ”سی پیک“ کے نام سے پروجیکٹ کے اغراض و مقاصد سامنے آئے تو دنیا کو معلوم ہوا کہ مذکورہ تجارتی راہداری کا منصوبہ مستقبل میں چین کی معیشت و تعمیر و ترقی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت حاصل کرنے جا رہا ہے تو ساتھ ہی پاکستان کےلئے بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ سی پیک کی اہمیت ہی کا کمال تھا جس نے بھارت کو پاگل کر دیا۔ بھارتی حکمرانوں نے منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنے کےلئے ”را“ میں الگ شعبہ قائم کر کے اس کیلئے بھاری فنڈز مختص کر دیئے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم بطور قوم سی پیک منصوبے کی حفاظت اور اس کی کامیابی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ یہ کام اکیلے حکومت کے کرنے کا نہیں ہمارا دانشور طبقہ اس سلسلے میں زیادہ فعال کردار ادا کر سکتا ہے جس کی بنیاد کراچی میں صحافی ویلفیئر ایسوسی ایشن نے ”سی پیک ردھم آف پروگریس“ کے عنوان سے گزشتہ ماہ 29 اگست کو سیمینار منعقد کر کے رکھ دی ہے‘ سیمینار میں سی پیک سے آگاہی کےلئے سیر حاصل گفتگو کی گئی‘ ماضی میں اس کی راہ میں حائل کی جانے والی رکاوٹوں‘ بھارت کی جانب سے کئے جانےوالے حملوں اور اس حوالے سے موجود خدشات کے علاوہ منصوبے میں ہونےوالی پیشرفت سے شرکا کو آگاہ کیا گیا۔ اس طرح کے سیمینار دیگر بڑے شہروں میں بھی منعقد ہونے چاہئیں۔بلاشبہ سی پیک پاکستان کا قومی منصوبہ ہے اس پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن