سب سے پہلے حج کی سعادت حاصل کرنے والے فرزندان اسلام کو حج مبارک‘ مسلمانان عالم کوگزشتہ عید مبارک۔لاکھ لاکھ شکر خدا وندی تعالیٰ ہے کہ عید قربان بخیرو خوبی گزر گئی تاہم ملک بھرمیں فائرنگ و حادثات کے واقعات میں جاں بحق 70 سے زائد افراد کے لئے دعائے مغفرت ۔ کراچی میں ممبر سندھ اسمبلی خواجہ اظہارا لحسن پر حملہ قابل مذمت اور افسوس ناک ہے‘ حملہ کے خلاف تحقیقات جاری ہے۔ عید قربان سنت ابراہیمی علیہ السلام ہے جس کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ نبی اکرم کا معمول تھا کہ آپ عید ا لاضحی کے روز کچھ کھائے پئیے بغیر عیدگاہ میں تشریف لے جاتے تھے۔ قربانی دینے والا قربانی کاگوشت خود بھی کھا سکتا ہے پکا کر بھی کھلا سکتاہے۔ قربانی کے گوشت کے لئے حکم ہے کہ گوشت کے تین حصے کئے جائیں ایک حصہ فقرائ‘ مسکین اورمستحقین کے لئے‘ دوسرا حصہ احباب عزیزواقارب کے لئے اورتیسرا حصہ اپنے گھر والوںکے لئے ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے اورکل کا صدقہ کردینا بھی جائز ہے۔ ( ابن کثیر جلد 4 صفحہ 189) اور یہ بھی کہیں نقل یا روایت نہیں ہے کہ جس گھرمیں قربانی کی گئی ہو وہاں ان دوست یا عزیز و اقارب کے ہاں قربانی کاگوشت نہ پہنچایا جائے‘ لیکن اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں یہ روایت زور پکڑگئی ہے کہ دوست و احباب تو کجا‘ فقیر و مساکین کو بھی گوشت نہیںدیا جاتا اور حتی المکان کوشش ہوتی کہ قربانی کا گوشت اپنے مصرف میں لایا جائے چنانچہ عید سعید پرکس نے اپنے قربانی کے گوشت کے ساتھ کیا انصاف کیا وہ بخوبی جانتے ہیں۔ بہرحال معاشرے میں اصلاح کی ضرورت رہتی ہے کیونکہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا کہ ”(یوم النحر) یعنی دسویں ذی الحجہ میں ابن آدم کا کوئی عمل قربانی کرنے سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور خون زمین پر گرنے سے قبل ا للہ کی بارگاہ اقدس میں قبولیت پرپہنچ جاتا ہے‘ لہذا خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو“۔
عید گزر گئی‘ معمولات زندگی‘ معمولات کاروبار ایک بارپھر رواں دواں ہواچاہتے ہیںمگر عید سے قبل ہونے والی باران رحمت یعنی عید سے دو دن پہلے ہونے والی موسلادھار بارش نے جہاں حکومتی اقدامات کی قلعی کھول دی وہیں پر جانوروں کی آ لائشیں تا حال سوالیہ نشان اورچیلنجز بنے ہوئے ہیں۔ عید الاضحی کی چھٹیوںکے باعث بارش کے ساتھ صفائی ستھرائی اور کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا عمل معطل ہوگیا۔ ایک جانب کوڑے اور الاآئشوںکے ڈھیر ہیں تو دوسری جانب شہرکے کچھ علاقوں میں بارش کا پانی کھڑا ہے۔ اب بھی 250 چھوٹے بڑے نالے بدستور بند ہیں اور ان کے کناروں سے پانی بہہ رہا ہے واٹر بورڈ اور کے الیکٹرک نے جو سڑکیںکھودیں وہاں گڑھے پڑ گئے ہیں جنہیں تاحال بند نہیں کیا جاسکا ہے‘ اوریہ صورتحال مزید سنگین ہونے کا اندیشہ ہے۔
حکومت سندھ اور بلدیاتی اداروں کے درمیان اختیارات ا ورفنڈز کی جنگ نے نہ صرف کراچی کے انفراسٹرکچر کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ صوبے کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں ترقیاتی کام التواءکاشکار ہیں۔ ا نہیں عوامی نمائندوں کے اختیارات کی عدم فراہمی کامعاملہ شدت اختیارکرگیا ہے۔ میئر وسیم اختر اور ڈپٹی میئرارشد وھرا سمیت متحدہ کے عوامی نمائندوں نے اپنی نشستوں سے استعفیٰ دینے پر غور شروع کردیا ہے اور اس حوالے سے پارٹی کی مرکزی قیادت میں مشاورتی عمل شروع کردیا ہے۔ بے اختیار شہری حکومت سے مستعفی ہو کر سندھ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ عید سے دو روز قبل ہونے والی بارش میں سندھ حکومت اور بلدیاتی عملہ سڑکوں سے غائب تھا چنانچہ حکومت کو فوج ا ور رینجرز کی مدد طلب کرنا پڑی۔ جن کی کاوشوں سے شہر کی حالت قدر بہتر ہوئی تاہم بعض علاقوںسے تاحال نکاسی آب نہ ہوسکی ہے اور عید کے بعد قربان کئے گئے جانوروں کی آلائشیں ٹھکانے لگانے کا کام مکمل نہیں ہوسکا۔ کراچی میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ دو ضلعوں شرقی اور جنوبی میں آلائشوں کو اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کی درست حکمت عملی نہیں بناسکا۔ عیدالاضحیٰ آپریشن کے دوران دونوں ضلعوں کے کئی علاقوں میں آلائشیں پڑی رہیں جنہیں اٹھانے کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ گلشن اقبال کے کئی بلاکس، محمود آباد اور منظور کالونی میں پہلے اور دوسرے دن آلائشیں جا بجا پڑی رہیں جنہیں اٹھانے کے لئے کوئی نہیں پہنچا۔ اسی طرح شہر کے دیگر چار ضلعوں میں بھی صورت حال ملی جلی رہی۔ قائد آباد، ملیر 15، کالابورڈ، رفاہ عام سمیت کئی علاقوں میں رات گئے تک آلائشیں نہیں اٹھائی گئیں۔ ابراہیم حیدری سے بھی اس قسم کی شکایات موصول ہوئیں۔ اداروں کی چشم پوشی اور فرائض میں غفلت کے باعث تعفن کے ساتھ ساتھ خطرناک بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے‘ ایسی صورت حال میں حکومت سندھ ہو یا بلدیاتی ادارے اپنی اپنی ذمہ داریوں کے مطابق امورسرا نجام دیںتاکہ عوام کو ریلیف ملے۔
دوسری جانب صوبائی وزیربلدیات جام خان شورو کا کہنا ہے امسال بہت زیادہ بارش ہوئی ہیں جس کی وجہ سے مکمل طور پر نکاسی آب نہ ہوسکی ہے‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں مختلف مقامات پر مشکلات پیش آرہی ہیں‘ جس کے لئے بلدیاتی نمائندوںکا تعاون ناگزیر ہے۔ بہر حال جوبھی صورت حال ہے حکومت شہریوں کوسہولتیں فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے اور حکومت اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے کوئی کسرنہ اٹھا رکھے یہی وقت کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر تعفن اور الائشوں سے ہونے والی تباہی اوربیماریوں کا نہ رکنے والا طوفان پر قابو نہ پایا جاسکے گا۔