غیر منقسم ہندوستان میں بدایوں مزارات شہداء اور ملتان مقابر اولیاء سے معروف تھا جسکی سند مصحفی اور شیخ سعدی کے اشعار سے بھی ملتی ہے لیکن پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی بھی دیکھا جائے تو بزرگان دین کے مزارات کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے قیام پاکستان سے قبل کا کراچی کیماڑی سے گرومندر تک محیط تھا اس سے آگے جمشید روڈ پر متمول لوگوں کی کوٹھیاں تھیں یاپھر سینٹرل جیل کے اطراف میں گھنا جنگل جہاں پیر علی محمد راشدی نے تیتر کے شکارکی داستان اپنی تصنیف اہے ڈیھن اہے شیھن ( وہ دن وہ لوگ) میں رقم کی ہے اتنے مختصر سے کراچی میں منوڑہ ‘ کلفٹن ‘ کیماڑی اور گزری کے سید یوسف شاہ مہدویؒ ‘عبداللہ شا ہ غازی ؒ ‘ پیر غائب شاہ ؒاور سید مصری شاہ ؒہی مدفون نہیں تھے بلکہ کھارادر ‘ میٹھا در ‘کھوڑی گارڈن ‘ بھیم پورہ ‘ نانک واڑہ ‘ رنچھوڑ لائن ‘ شو مارکیٹ‘ گارڈن ایسٹ‘ گرومندر ‘رتن تلائو اور ڈولی کھاتہ سمیت اولڈ سٹی ایریا میں بلا مبالغہ کئی درجن بزرگان دین کی درگاہیں اور خانقاہیں واقع تھیں جن پر مسلمان ہی نہیں ہندو‘ پارسی ‘ عیسائی اورسکھ تک حاضری دیا کرتے تھے۔ قدیمی کراچی کی تاریخ رقم کی جائے تو بھیم پورہ کے کی مزار گلی کے ایک ولی کامل کا تذکرہ بھی ملتا ہے جنہیں بچوں سے بہت محبت تھی اور آج تک ان کے عرس کا اہتمام علاقے کے بچے ہی کرتے ہیں اسی طرح کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر جو 70 ء کے عشرے سے قبل بندرروڈ کہلاتی تھی پیر سید محمد بچل شاہ کی درگاہ واقع ہے۔ گاڑی کھاتہ اورآرام باغ روڈ کی درمیانی سڑک پر حضرت مستان شاہ باباؒ کا مزار واقع ہے جمال قطب عالم کے مصنف صوفی دلبر شاہ وارثی بیان کرتے ہیں کہ آپ کی ولادت 1047 ھ بمطابق 1637 ء میں بعد نماز فجر بخاری سرا میں ہوئی یہ علاقہ قدیمی روایات کے مطابق موجودہ عیدگاہ قصابان سے ملحق مزار بابا عالم شاہ بخاریؒ کے اطراف کی جگہ ہے آپ کے والد حضرت سید دائود بغدادیؒ تھے۔ حضرت سید امام محمد کلاں درویش بخاریؒ نے آپ کے کان میں اذان دی اور نام محمد عارف اللہ رکھا اور سید بچل شاہ کاخطاب دیا۔ قرآن کریم کی ابتدائی تعلیم آپ نے حضرت نور احمد ( خوبؒ) عرف اچھے (اچھی قبر والے) سے حاصل کی پھر دادا حسن جان پیرؒ سے قرآن کریم حفظ کیا ۔ بعدازاں آپ کی والدہ صاحبہؒ نے آپ کو دیگر علوم دینیہ حاصل کرنے ٹھٹھہ روانہ فرمادیا۔ جہاں حضرت امام محمد کلاں درویش بخاریؒ کی اہلیہ کے زیر سایہ آپ دینی علوم حاصل فرماتے رہے۔ یہ وہ دور تھا جب ٹھٹھہ علوم وفنون کا مرکز تھا۔ پھر 14 برس کی عمر میں واپس بخاری سرا( کراچی) حاضر ہوئے تو آپ کے والد بزرگ حضرت سید داد دائود بغدادیؒ نے آپ کی روحانی تعلیم وتربیت خودفرمائی ۔آپ حضرت بچل شاہ مستان ؒ بڑے عابد وزاہد شب بیدار تھے ‘ 11ربیع الثانی 1041 ھ میں آپ کووالد بزرگ نے بیعت فرما کر اپنا جدی قادری خرقہ ودستار عنایت فرمائی ۔ حضرت دادا فتح محمد پیر ایک روایت میں بیان فرماتے ہیں کہ حضرت دادا محمد حسن جان پیرؒ نے جناب بچل شاہ مستان ؒ کو طریقت سہروردیہ کا خرقہ ودستار عطا فرما کر اس وقت سند رشد وہدایت پر 15برس کی عمر میں فائز کیا تھا جب سید بچل شاہ کے والد حضرت دائود بغدادیؒ 1062 ھ میں وصال فرما گئے تھے۔ حضرت بچل شاہ مستان ؒ کے اسلاف سلسلہ قادریہ کے صاحب کشف وکرامت بزرگ تھے اللہ تعالیٰ نے سید بچل شاہ کو 3فرزند سید معصوم شاہ بغدادیؒ ‘ سید قطب شاہ بغدادی ؒ‘ سید یعقوب علی شاہ بغدادیؒ اور ایک دختر سیدہ عائشہ بی بی ؒ عطا فرمائی تھیں۔ حضرت سید معصوم شاہ بغدادیؒ کو بستی ( اطراف ملیر ندی) سے واپسی پر کچھ راہزنوں نے 15برس کی عمر 1092 ھ بمطابق 1681 ء میں شہید کردیا تھا۔ آپ کو سید معصوم شاہ بغدادی ؒ کی جائے شہادت پر ہی تدفین کیا گیا تھا۔ آپ کی لحد مبارک آج بھی لب شاہراہ ملیرندی بفیض الٰہی موجود ہے۔دوسرے فرزند سید محمد قطب شاہ بغدادیؒ کامزار مبارک بھیم پورہ میں مرجع خاص وعام تیسرے فرزند سید یعقوب علی شاہ بغدادیؒ کا مزار مقدس اسلام پورہ (عثمان آباد) میں زیارت گاہ ہے۔ دختر سیدہ عائشہ بی بی ( زوجہ سید معصو م علی شاہ بخاری ؒ کی قبر مبارک قدیم خانقاہ بخاریہ نزد کھارادر پولیس چوکی میںواقع ہے۔ حضرت سید عارف اللہ المعروف بچل شاہ مستان ؒ پر آخری عمر میں مجذوبیت کا غلبہ ہوگیا تھا پھر آپ کو نہ تو خورد نوش کا ہوش تھا تو اور نہ ہی کوئی اور فکر یعنی آپ پر عرفان الٰہی کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ دنیائے بے ثبات سے بے نیاز ہوگئے اور اپنے وقت کے تمام مجذ وبوں میںسربلند تھے مقام کمال پر فائز ہوئے اور 2 ذالحجہ 1129ھ بمطابق 1717 ء 82 برس کی عمر میں وصال فرمایا ۔ اولیائے کراچی میں ممتاز حیثیت کے حامل سید بچل شاہ عرف مستان بابا بخاریؒ کے کشف وکرامات کے سیکڑوں واقعات عقیدت مند بیان کرتے ہیں چند ایک کا تو راقم گواہ ہے اور کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا مدتوں روزانہ حاضری کی سعادت نصیب ہوئی اور بہت کچھ بصورت فیض مقدر بنا۔ وادیٔ مہران کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی فرماتے ہیں ’’جو ہستیاں رات کو جاگ کر مالکِ حقیقی سے لَو لگاتی ہیں پس مرگ ان کی مرقد کو اللہ رب العزت وہ قدر و منزلت عطا کرتا ہے کہ کروڑہا افراد صبح و شام ان کے حضور بغرض سلام حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں‘‘ کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر گاڑی کھاتہ میں ہرمزجی اسٹریٹ پر مستان باباؒ کا مزار مقدس واقع ہے۔ یعنی گزشتہ 310 برس سے عشق و محبت کا سلسلہ جاری ہے۔ جو ایک مرتبہ حاضر ہوا اس در کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخشؒ ارشاد فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے طفیل دعائیں قبول کرتے ہیں‘ بارش برساتے اور بوٹے اُگاتے ہیں‘‘ بلاشبہ حضرت مستان باباؒ کا شمار بھی مقربین میں ہوتا ہے۔ حضرت مستان شاہؒ کا عرس ہر سال 26‘ 27 اور 28 ذی الحجہ کو ان کے مزار واقع ہرمزجی اسٹریٹ گاڑی کھاتہ ایم اے جناح روڈ پر منایا جاتا ہے۔ ان دنوں بھی ان کے عرس کی تقریبات جاری ہیں اور بدھ 16 دسمبر کو عرس کا آخری دن ہے۔