خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے دورخلافت میں غالباً اس سے زیادہ کسی موقع پر پریشان نہیں ہوئے جب جھوٹی نبوت کے دعویدار مسلمہ کذاب کے خلاف جہاد کیا گیا اور اس میں قرآن پاک کے حافظوں کی صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین پر مشتمل ایک بڑی جماعت شہید ہو گئی تھی لیکن اللہ رب العزت نے مسلمانوں کے حصے میں فتح لکھ دی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں حضرت عمر فاروقؓ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اس جہاد میں قاری بہت شہید ہو گئے ہیں، اگر اسی طرح ایک دو لڑائی میں اور شہید ہو گئے تو قرآن پاک کا بہت سا حصہ ضائع ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے اس کو ایک جگہ لکھوا کر محفوظ کر لیا جائے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے فرمایا ”ایسے کام کی کیسے جرات کرتے ہو جس کو حضور اقدسﷺ نے نہیں کیا، حضرت عمر فاروقؓ اس پر اصرار فرماتے رہے اور ضرورت کا اظہار کرتے رہے، بالاخر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی رائے بھی ان کے موافق ہو گئی جس پر حضرت زید بن ثابتؓ کو بلایا گیا اور کہا گیا کہ تم جوان ہو اور دانشمند، تم پر کسی قسم کی بدگمانی بھی نہیں اور تم حضوراقدسﷺ کے زمانے میں وحی کے لکھنے پر بھی مامور رہ چکے ہو لہٰذا قرآن شریف کو لکھ کر محفوظ کر لیا جائے۔ زید بن ثابتؓ نے بھی فرمایا کہ جس کام کو حضورﷺ نے نہیں کیا اس کی کیسے جرا¿ت کی جا سکتی ہے لیکن بالاخر وہ بھی قرآن پاک کو یکجا جمع کرنے پر متفق ہو گئے۔ انہوں نے خلیفہ اول کے تکمیل ارشاد میں لوگوں کے پاس جو قرآن شریف متفرق طور پر لکھا ہوا تھا اور جو ان حضرات صحابہ کرامؓ کے سینوں میں محفوظ تھا سب کو تلاش کر کے جمع کیا۔ آپﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہے جسے تھامو گے فلاح پا¶ گے۔
آپ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرفاروقؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ تینوں صحابہ کرام کے ایمان اور آپﷺ سے عشق و محبت کا اندازہ بھی اس واقعہ سے لگا سکتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا کام کرنے میں بھی شدید خوف محسوس کیا کرتے تھے جس کو آپﷺ نے نہیں فرمایا لیکن مسلمہ کذاب کے ساتھ جہاد میں حافظ صحابہ کرام کی بڑی تعداد کی شہادت کے بعد قرآن پاک کو محفوظ کرنے کا پاک اور عظیم تر فریضہ سرانجام دینے پر راضی ہو گئے۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز سامراج نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کی صورت میں ایک ایسا فتنہ پرور پودا لگایا جس کا مقصد مسلمانوں کو تقسیم کرنا اور ان کے جذبہ ایمانی کو ٹھیس پہنچانا تھا۔ پاکستان میں تحفظ ختم نبوتﷺ کے لئے دو بڑی تحریکیں چل چکی ہیں جس میں ہزاروں فرزندان اسلام اپنی جانوں کے نذرانے تک پیش کر چکے ہیں لیکن افسوس پاکستان کی موجودہ حکومت جس کے قائد عمران خان اس عظیم مملکت خداداد کو ریاست مدینہ کی طرز پر قائم کرنے کا نعرہ اور بار بار نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے ہیں ان کا وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جسے حکومت کا ریڈیو سپیکر کہا جاتا ہے وہ اکنامک کوارڈی نیشن کمیٹی میں مبینہ طور پر ایک قادیانی کو شامل کرنے پر سول سوسائٹی اور ہر مکتبہ فکر کے احتجاج پر ایک عجیب و غریب قسم کی منطق اور دلیل پیش کر رہے ہیں جس پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے خلاف شدید احتجاج جاری ہے۔ ان سے اچھے وزیراطلاعات پرویزرشید، شیری رحمان، شیخ رشید اور ماضی کے دوسرے وزیر اطلاعات رہے ہیں۔ فواد چوہدری کے اس مخصوص سیاق و سباق میں دیئے گئے بیان کا عوام کیا مطلب لیں کہ صرف چند روز پہلے ہالینڈ کی طرف سے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منعقد کرنے کے اعلان پر وزیراعظم عمران خان نے قوم کے نام ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں کہا گیا کہ او آئی سی کا خصوصی اجلاس بلایا جائے گا اور اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو اٹھا کر انگریزوں کو بتایا جائے گا کہ مسلمان اپنے نبی حضرت محمدﷺ پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور ان سے ان کی محبت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ عمران خان کے اس بیان کو مذہبی حلقوں کی طرف سے بھی بھرپور انداز میں سراہا گیا۔ امیرجماعت الدعوة حافظ محمد سعید عمران خان کے اس بیان کی تعریف کرتے ہوئے ایک تقریب کے دوران رو پڑے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ کسی منتخب وزیراعظم نے تحفظ ختم نبوت کے لئے عالمی قوتوں کے سامنے عالمی پلیٹ فارم پر آواز اٹھانے کا اعلان کیا ہے لیکن افسوس عمران خان فوادچوہدری جو تحریک انصاف کے وزیراطلاعات و نشریات ہیں ان کے مخصوص سیاق و سباق پر مبنی بیان کا نوٹس نہیں لے سکے۔ مدینہ کی ریاست میں کیا ایسی کوئی گنجائش نکل سکتی تھی۔ مکہ سے آپﷺ نے ہجرت کی اور پھر فتح مکہ کے موقع پر جب مسلمان سرخرو ہو کر مکہ لوٹے تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی نہتے شخص ، عورت، بچے، بوڑھے، جانور حتیٰ کہ درخت کو بھی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، پھر آپﷺ حضرت بلال حبشیؓ سے فرمایا کہ بیت اللہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دیں، حضرت بلال حبشیؓ کی اذان سے پورے مکہ میں سکتہ طاری ہو گیا۔ چرند، پرند اور جانور بھی خاموش ہو گئے۔ یہ ریاست مدینہ کا عملی مثالی اور واحد نمونہ تھا۔ فتح مکہ ریاست مدینہ کی تکمیل تھی لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے آپﷺ کی ریاست مدینہ کا نام تو استعمال کیا جا رہا ہے لیکن ان کے وزراءجس قسم کے بیانات داغ رہے ہیں وہ تحریک انصاف کے منشور اور دعو¶ں کی صریحاً نفی ہے۔ عمران خان اکنامک کوارڈی نیشن کمیٹی میں اگر کوئی ایسا شخص شامل ہے تو اس کو ملک کے آئین اور قانون کے مطابق اس کمیٹی سے باہر نکالیں۔
1973ءکا آئین واضح کرتا ہے کہ قادیانی غیرمسلم اقلیت ہیں وہ کسی کلیدی عہدے پر فائز نہیں ہو سکتے۔ امتناع قادیانی آرڈیننس کے تحت قادیانی خود کو مسلمان لکھ اور پکار نہیں سکتے۔ صد حیف قومی اسمبلی میں 1973ءکے آئین میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دلوانے کے لئے اہم ترین کردار ادا کرنے والے مفتی محمود کا بیٹا مولانا فضل الرحمن بھی آج صرف سیاست اور دنیاوی سیاست میں مگن ہے لیکن اللہ نے اپنے دین کا کام کسی نہ کسی سے لینا ہے اور وہ لے کر رہے گا۔ عمران خان ریاست مدینہ کی طرز کی حکومت کی اصل کی طرف آئیں تو ان کے لئے بہتر ہو گا۔