ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جسے ہم انقلاب روس، دوسری جنگ عظیم اور آخر میں سرد جنگ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اِن دنوں کو بیتے ابھی صرف چند دہائیاں ہی ہوئی ہیں۔ اُس وقت ہر طرف پھیلی سرد جنگ کی ادائیں اور نخرے نرالے تھے۔ اس لڑائی کے طور طریقے بھی اپنے ہی تھے۔ مثلاً خارجہ تعلقات میں دوسروں کو پیغام دینے والے کا اداکاری کرنا ایک ضروری اور مؤثر ہتھیار سمجھا جاتا تھا۔ گویا سرد جنگ کی خارجہ پالیسیوں میں بیانات اور تقریروں کے ساتھ ساتھ اداکاری بھی اہم تھی۔ مثال کے طور پر سوویت یونین کے سربراہ لینن اپنا رعب جمانے کے لئے دائیں ہاتھ کو اپنے سرسے بلند کرکے ہتھیلی کو زمین کی طرف کرتے اور پانچوں انگلیاں جوڑ کر دوسروں کی طرف تان لیتے۔ گویا کہہ رہے ہوں کہ تم سب میرے ہاتھ کے نیچے ہو۔ انگلستان کے وزیراعظم چرچل تقریر کرتے وقت دوسروں کو مرعوب کرنے کے لئے دایاں ہاتھ اوپر اٹھا کر انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتے۔ امریکہ کے صدر روزویلٹ عموماً بیٹھ کر تقریر کرتے۔ وہ اس طرح بیٹھے ہوتے کہ ان کا نچلا دھڑ میز کے پیچھے چھپا ہوتا۔ ان کے بیٹھنے کا یہ انداز ان کے متکبر اور مغرور ہونے کا تاثر چھوڑتا۔ حالانکہ حقیقت میں ان کا نچلا دھڑ کچھ مفلوج تھا۔ چین کے مائوزے تنگ اپنے بائیں ہاتھ کو کمر پر ٹکا لیتے اور دایاں ہاتھ اونچا کرکے تقریر کرتے جو اُن کے بھرپور عوامی قائد ہونے کا ثبوت ہوتا۔ لیبیا کے صدر قذافی دونوں ہاتھوں کے مکے بناکر ہوا میں بلند کرتے جیسے مکوں سے دشمن کا توپ خانہ تباہ کر دیں گے۔ یوگنڈا کے اِیدی امین ہتھیلیاں سامنے کی طرف کرکے انگلیاں مکے کی طرح بند کرلیتے اور دونوں ہاتھ اپنے سینے کے قریب کھینچ لیتے۔ یوں لگتا کہ وہ باکسنگ کا پنچ مارکر مخالف کے دانت توڑ دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کمانڈو کا یونیفارم بھی پہنے رکھتے۔ کیوبا کے صدر فیدل کاسترو منہ میں سگار دبا کر یوں دھواں چھوڑتے کہ سگار کے دھوئیں میں امریکا کو اڑا دیں گے۔ لیاقت علی خان کا ہوا میں مکا لہرانا بھی ایک تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ ایسے ہی اقوام متحدہ کے اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کا قرارداد کو پھاڑ دینا خارجہ امور میں اداکاری کی شاندار مثالوں میں سے ایک ہے۔ سرد جنگ ختم ہوئی تو اپنے رنگ ڈھنگ بھی اپنے ساتھ ہی لے گئی۔ اب خارجہ تعلقات میں اداکاری کی بجائے دوٹوک اور صاف صاف موقف اختیار کیا جانے لگا۔ بہت ہی سخت بات بڑے سکون کے ساتھ دوسرے کے منہ پر کہہ دینے کا رواج پڑا۔ یعنی اداکاری کی جگہ مختصر الفاظ میں ٹودی پوائنٹ گفتگو نے لے لی۔ دو دن قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھارت جاتے ہوئے پاکستان رُکے۔ ان کے ساتھ امریکی ملٹری چیف بھی تھے۔ امریکی حکام کے اِس دورے کی پہلی علامتی تشریح یہی کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے پاکستان میں صرف دو گھنٹے قیام کیا جبکہ ہندوستان میں تقریباً چوبیس گھنٹوں سے زیادہ وقت گزارا۔ سفارتی تجزیہ کاری میں اِسے یوں کہنا چاہئے کہ امریکہ پاکستان سے صرف دہشت گردی کے خلاف ضروری اقدامات کروانا چاہتا ہے جبکہ بھارت کو خطے میں اپنا الائیڈ سمجھتا ہے۔ امریکہ کی پاکستان اور ہندوستان کے لئے روزِ روشن کی طرح عیاں اِس امتیازی پالیسی کے باوجود پاکستانی وزیر خارجہ نے امریکی حکام کے دورے کے بعد جو پریس کانفرنس کی اُسے دیکھ کر سرد جنگ کی خارجہ پالیسیوں کی اوپر دی گئی۔ اداکاری والی مثالیں یاد آگئیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی یہ پریس کانفرنس سٹائل سے بھرپور تھی۔ صحافیوں کو سب سے پہلی حیرانگی یہ ہوئی کہ اتنے اہم دورے کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس نہیں کی گئی لیکن شاہ محمود قریشی اپنی کامیابی ثابت کرنے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔ اُن کی دِلربا گفتگو سن کر لگتا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ کی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کا ماحول کچھ ایسا تھا جیسے ابراہم لنکن اپنے دوستوں کے ساتھ تھیٹر دیکھتے ہوئے گفتگو کر رہے ہوں یا یہ کہ ڈاکٹر عارف علوی صدارتی انتخابات کے نتائج سن کر شکرگزاری کے لئے عمران خان سے ملنے آئے ہوں۔ اس پریس کانفرنس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صحافیوں کو عمومی طور پر ہلکا پھلکا ڈانٹتے، سمجھاتے یا نصیحت کرتے نظر آئے۔ انہوں نے زیادہ تر سوالات کے جوابات یہ کہہ کردیئے کہ ’’شاید آپ نے میری بات نہیں سنی، شاید آپ کو سمجھ نہیں آئی، خارجہ امور میں ایسا نہیں ہوتا ویسا نہیں ہوتا، یا یہ کہ یہ بات میں نے نہیں کہی یہ تو آپ کہہ رہے ہیں‘‘۔ شاہ محمود قریشی کی یہ انتہائی اہم پریس کانفرنس، پریس کانفرنس کم اور سکول ٹیچر کی کلاس زیادہ لگ رہی تھی جس میں وہ اپنے بے باک طالب علموں کو کنٹرول کرنے کے لئے کتابی درس دیتا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پوری پریس کانفرنس کا مرکزی ہیرو خود اپنے آپ کو ہی رکھا۔ وزیراعظم عمران خان کا نام تبرکاً ضرور استعمال کیا مگر ان کا ہر جملہ میں سے شروع ہوکر میں پر ہی ختم ہوتا تھا۔ اُن کی گفتگو سے یوں لگتا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور امریکی ملٹری چیف ہندوستان جاتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ شکریہ ادا کرنے کے لئے جہاز سے اتر آئے ہیں کہ انہوں نے اپنے قیمتی وقت سے دو گھنٹے امریکی حکام کو دیئے۔ پاکستانی وزیر خارجہ کی مذکورہ سٹائلش پریس کانفرنس جونہی ختم ہوئی تو اس دورے کے حوالے سے امریکی دفتر خارجہ کا ریڈآئوٹ آگیا جس میں مختصر سی رسمی گفتگو کے بعد لکھا گیا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی حکام کو خطے کا امن خراب کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف مستقل اور موثر کاروائی کرنے کا پیغام پہنچایا۔ امریکی ریڈ آئوٹ پاکستانی وزیر خارجہ کی سجیلی پریس کانفرنس میں سنائی گئی ’’لَوسٹوری‘‘سے بالکل مختلف تھا۔ تحریک انصاف کی تین ہفتے پہلے قائم ہونے والی حکومت کے معاملات میں سب سے زیادہ سنگین کنفیوژن خارجہ امور میں سامنے آئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے دفتر خارجہ کے افسران بے حد تجربہ کار اور سفارت کاری میں انتہائی مہارت کے حامل ہیں۔ وہ ایسی غلطیاں نہیں کرسکتے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت میں خارجہ امور میں سبکی کا باعث کون بن رہا ہے؟ ہر حکومت کو اپنے ساتھیوں میں سے کسی نہ کسی کی سیاسی قربانی دینی پڑتی ہے۔ یہ نہ ہو کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی ملک کے بہتر امیج کے لئے کسی قریبی ساتھی کی وزارتی قربانی کا فیصلہ کرنا پڑے۔ اُردو کے نامور شاعر طاہر فراز کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔
شامِ غم تجھ سے جو ڈر جاتے ہیں
شب گزر جائے تو گھر جاتے ہیں