پاکستانی عوام دو جماعتوں اور ڈکٹیٹروں کی ”ڈنگی“ ہوئی تھی اب انہیں ایک ایسی جماعت کی تلاش تھی جو قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کرے اور عوام کے بنیادی مسائل حل کرے۔ پی ٹی آئی 22 سال سے میدان میں تھی۔ گذشتہ پانچ سال میں پی ٹی آئی کو کے پی کے میں حکومت کرے کا موقع بھی ملا۔ سابقہ پانچ سالہ دور میں عمران خان نے پانامہ کے خلاف دھرنا بھی دیا۔ ساتھ ہی ”کنٹینر“ پر کھڑے ہو کر اور ویسے بھی پاکستانی عوام کو ”بہتری“ کے خواب دکھاتے رہے کہ میں کرپشن کا خاتمہ کروں گا۔ پاکستان کو مدینے کی طرز کی ریاست بنا¶ں گا وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال 2018ءمیں پی ٹی آئی کو حکومت کرنے کا موقع ملا ہے۔ اب وزیراعظم بھی عمران خان ہیں۔ پنجاب اور کے پی کے میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے اب پاکستانی عوام اپنے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے عمران خان سے امید لگائے ہوئے ہے۔ اللہ کرے وزیراعظم ملک میں قانون کی حکمرانی کا خواب بھی پورا کریں۔ بدقسمتی سے ”تبدیلی“ کا آغاز کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، یہاں وزیراعلیٰ تجربہ کار اور سیاسی بصیرت والا ہونا چاہئے تھا۔ عمران خان نے اپنی پسند کی بنا پر سردار عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنایا ہے۔ جن کے بارے وزیراعظم صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے عثمان بزدار کا دو ہفتے انٹرویو کیا مجھے وہ ایماندار لگے ا ور یہ کہ وہ ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے علاقے میں بجلی بھی نہیں ہے اور صاف پانی بھی نہیں ہے۔ یہ بات بڑی مضحکہ خیز ہے کہ سردار عثمان کے دادا اور والد بھی سیاست میں تھے قومی اسمبلی کے ممبر بھی تھے اور سردار صاحب خود بھی کئی بار حکومت کا حصہ رہے مگر اس قدر صاحب حیثیت ہونے کے باوجود وہ اپنے علاقے کے مسائل بھی حل نہیں کرا سکے اور ان کا علاقہ آج بھی بجلی اور صاف پانی سے محروم ہے حالانکہ وہ کئی نسلوں سے سیاست میں ہی نہیں اقتدار میں بھی رہے۔ جب ایسی صورتحال ہے تو عثمان صاحب اب پنجاب کی عوام کے مسائل جو کہ انبار کی شکل اختیار کئے ہوئے ہیں ان کو حل کر پائیں گے؟۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ وزیراعظم کئی بار دھرنوں میں اور ویسے بھی فرماتے رہے کہ ہم پنجاب پولیس ٹھیک کریں گے۔ پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کریں گے۔ ایک ٹیسٹ کیس حال ہی میں خاور مانیکا اور ڈی پی او رضوان گوندل کا معاملہ سردار عثمان کے سامنے آیا تو وزیراعلیٰ نے پولیس میں بذات خود پوری مداخلت کی۔ ڈی پی او کا خود تبادلہ کرایا اور اسے کہا کہ خاور مانیکا جوکہ وزیراعظم کی بیگم بشریٰ بی بی کے سابقہ خاوند ہیں ان کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگیں۔ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے تو وزیراعظم عمران خان کے ویژن کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ہے۔ چیف جسٹس نے اس واقعے کا نوٹس بھی لیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے لئے اس طرح پولیس میں سیاسی مداخلت کرنا بہت ہی شرمناک اور افسوسناک ہے۔ ”مدینے کی ریاست“ اور قائداعظم کی فلاحی ریاست کے خواب دکھانے اور آغاز ہی میں پولیس کو غلام سمجھ لینا یہ بات ناقابل فہم ہے۔ وزیراعظم کو خود عوام کے سامنے آکر اس واقعے کے بارے بات کرنی چاہئے تھی۔ لوگوں نے اس ”تبدیلی“ کے لئے عمران خان کو ووٹ نہیں دئیے تھے۔ عمران خان جس قانون کی حکمرانی کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے وہ یہاں نظر نہیں آرہی۔ وزیراعظم کو اقتدار میں آنے کے لئے اپنے اصولوں سے انحراف کر کے ایم کیو ایم جیسی ”گندی“ جماعت کو بھی ساتھ ملانا پڑا تو کیا اچھا ہوتا کہ اپنی پارٹی سے مشاورت کرتے اور فراخدلی سے کام لے کر چودھری پرویز الہٰی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیتے۔ چودھری صاحب منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ سابقہ دور میں وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پنجاب کو احسن طریقے سے چلاتے۔ مگر ایک ناتجربہ کار شخص وہ بھی ”سرداروں“ کے خاندان سے جہاں عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھا جاتا ہے۔ عثمان بزدار پنجاب کی عوام کو کیا ریلیف دے پائیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ سردار عثمان کو خاور مانیکا والا واقعہ میرٹ پر حل کرنا چاہئے تھا۔ خود کو اس طرح شامل کر کے قانون کی دھجیاں نہیں بکھیرنی چاہئے تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کو سنبھل سنبھل کر چلنا پڑے گا۔ باتیں آپ بہت کر چکے ہیں۔ اب آپ حکومت میں ہیں۔ عوام سے آپ نے جو جو وعدے کئے انہیں ہر حال میں پورا کرنا ہو گا۔ وزیراعظم کو پورے ملک میں قانونی کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہو گا۔ عوام کوریلیف دینا ہو گا۔ بنیادی مسائل اور لوڈشیڈنگ پر قابو پانا ہو گا۔ احتساب ضرور ہونا چاہئے مگر ذاتی انتقام کی بدبو کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ یکساں تعلیمی نصاب اب کرنا ہو گا۔ عام اور غریب شہریوں کی فلاح و بہبود کے لئے شب و روز محنت کرنا ہو گی۔ اقتدار ملنے پر متکبرانہ رویہ نظر نہیں آنا چاہئے۔ یہ ایک آزمائش ہے۔ دنیا اور آخرت میں بھی جوابدہی ہوتی ہے۔ ”تبدیلی“ کا آغاز اچھا ہونا چاہئے تھا۔ قائداعظم کے حکم کے مطابق قومی زبان اردو کا نفاذ بھی کرنا ہو گا۔ 71 سال سے اردو زبان کے نفاذ کی طرف توجہ نہ دے کر قائداعظم کے فرمان اور آئین پاکستان کی مسلسل نفی کی جا رہی ہے، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ وزیراعظم صاحب کو پہلی فرصت میں اس کانوٹس لینا چاہئے اور نفاذ اردو کا حکم صادر کرنا چاہئے۔