اس کہانی کا آغاز لاہور کی نکلسن روڈ پر ایک مفلوک الحال گھرانے سے ہوتا ہے، لیکن اس سے پہلے تھوڑا پیچھے چلتے ہیں۔ 1985ء کے انتخابات میں میاں صاحب (محمد نواز شریف) لاہور میں قومی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے (قومی اسمبلی حلقہ NA-95 اور اس کے نیچے پنجاب اسمبلی حلقہ PP-123) سیاست میں میری دلچسپی ’’نظری حد‘‘ تک تھی اورفیملی بزنس ہی میری توجہ اور سرگرمیوں کا مرکوز و محور تھا۔
1985ء کے انتخابات میاں نواز شریف کے آئندہ سیاسی سفر کا نہایت اہم سفر میل تھے ان کے سیاسی مستقبل کا بنیادی مرحلہ اس موقع پر چھوٹے بھائی کا لاتعلق رہنا ناممکن تھا، چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ ان کی انتخابی مہم میں بھر پور حصہ لوں گا اور الیکشن کے بعد دوبارہ اسی تندہی کے ساتھ کاروبار کی طرف لوٹ آؤں گا۔ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور عوام کی بھرپور تائید و حمایت کے ساتھ دونوں سیٹیں جیت گئے، میاں صاحب نے قومی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ دی اور پنجاب اسمبلی کی سیٹ پر وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔
وزیراعلیٰ کے طور پر میاں صاحب کو ملک کے سب سے بڑے صوبے پر توجہ دینا تھی لیکن ان کا اپنا’’حلقہ انتخاب‘‘ بھی توجہ چاہتا تھا انتخابی مہم کے دوران ہم نے گلی گلی جا کر، ایک ایک دروزہ کھٹکھٹا کر، ان کے مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی تھی، ضروری سہولتوں کی فراہمی کے وعدے کئے تھے اور اب اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھانی تھیں چنانچہ میں نے اپنی کاروباری مصروفیات میں سے، ہفتے میں تین دن، دو، دو گھنٹے نکالنے کا فیصلہ کیا اور مزنگ کے دفتر میں باقاعدہ بیٹھنے لگا، اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ سارا دن یہیں گزر جاتا۔
اس دوران پہلا رمضان المبارک آیا تو ہم نے حلقے کے مستحق گھرانوں کو ’’عیدی‘‘ کی فراہمی کا فیصلہ کیا اس کے لئے احتیاط ( اور رازداری) کے ساتھ فہرستیں تیار کروائیں۔ تراویح کے بعد چند احباب کے ساتھ نکلتا ان میں خواجہ ریاض محمود اور حاجی محمد شریف بھی ہوتے (خواجہ صاحب ان دنوں علیل ہیں، اللہ تعالیٰ سے ان کی مکمل اور جلد صحت یابی کیلئے دعا ہے) ایک شب ہم نے نکلسن روڈ پر ایک دروازے پر دستک دی یہ چھوٹا سا کمرہ تھا جہاں ایک خاتون پیڑھی پر بیٹھی تھیں۔ ایک بستر پر لاغر جوان عورت تھی۔ خاتون نے بتایا کہ یہ اس کی بیٹی ہے تپ دق کی مریضہ، تھوکتی رہتی اس کا خاوند یہ کہہ کر اسے ماں کے گھر چھوڑ گیا تھا کہ مجھے تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں اس کے علاج کیلئے پیسے کہاں سے لاؤں؟ میرے استفسار پر خاتون نے ایک سلائی مشین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ہی اس کی آمدن کا ذریعہ ہے گلی محلے کی عورتیں سلائی کیلئے کپڑے دے جاتی ہیں عام دنوں میں ماہانہ چار سو ساڑھے چار سو روپے تک بن جاتے ہیں عید کی وجہ سے رمضان المبارک میں ہزار، بارہ سو بھی ہو جاتے ہیں یہ ’’گھر‘‘ اسی ایک کمرے پر مشتمل تھا ایک کونے میں چولہا پڑا تھا اور ایک چھوٹا سا غسل خانہ تھا۔ 200 روپے کرایہ تھا مالک مکان خدا ترس اور نیک دل تھا کبھی سو، ڈیڑھ سو روپے سے بھی اکتفا کر لیتا اور کچھ کہے سنے بغیر چلا جاتا میں نے تسلی، تشفی کے بول کہے اور خاتون کے علاج معالجے سمیت کچھ اور ذمے داری بھی قبول کی۔
میں گھر لوٹ آیا، جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے زندگی کی ہر آسائش کی فراوانی تھی سحری تک ایک لمحہ بھی آنکھ نہ لگی، نکلسن روڈ کا وہ گھر اور گھرانہ میرے دل و دماغ کے ساتھ چپک گیا تھا یہ احساس مجھے بے قرار کئے ہوئے تھا کہ قائداعظم کی اسلامی فلاحی ریاست میں دراصل دو پاکستان ہیں، ایک غریب کا دوار دوسر امیر کا پاکستان ۔
کچھ لمحے غیر معمولی ہوتے ہیں۔ مجھے پر یہ لمحے ایک فیصلے کے ساتھ وارد ہوئے میں صبح ایمپریس روڈ پر اتفاق کے دفتر پہنچا اور اپنی جدید قیمتی گاڑی کی چابیاں والد صاحب کے سیکرٹری مختار صاحب کے میز پر یہ کہتے ہوئے رکھ دیں کہ اس گاڑی کو کمپنی کے غیر ملکی مہمانوں کیلئے رکھ لیں۔ یہ ڈائسن (Datsun 280c) تھی، مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو کے بعد قیمتی ترین جاپانی گاڑی۔
اب چھوٹی اور سستی سوزوکی میرے زیر استعمال تھی۔ کچھ عرصہ بعد شیراڈلے لی، میاں صاحب کے حلقے میں ’’رابطہ عوام دفتر‘‘ مجھے ہمہ وقت عملی سیاست میں لے آیا، 1988ء کے انتخابات میں، میں پنجاب اسمبلی کے حلقہ PP-122 (مزنگ) سے امیدوار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مہربانی کی اور میں یہ الیکشن جیت گیا (یہی انتخابات تھے جن میں بے نظیر صاحبہ پہلی بار وزیراعظم اور پنجاب میں، میاں صاحب دوبارہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے (1997ء کے انتخابات تک ا ایک لمبی کہانی ہے جب میاں صاحب دوبارہ وزیراعظم اور میں پہلی بار وزیراعلیٰ بنا… اور یہ کہانی پھر سہی)
وزارت اعلیٰ کے اس دور (1997ئ) تک یہی شیراڈ میری ہمدم و ہمساز رہی۔ ایک دن وزیراعظم صاحب نے انٹیلی جنس رپورٹس کے حوالے سے بتایا کہ میں انتہا پسندوں کی طرف سے خطرے میں ہوں اور سکیورٹی کا تقاضا ہے کہ بلٹ پروف گاڑی میں سفر کروں سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کا بھی اصرار تھا لیکن میں ٹال مٹول کرتا رہا بالآخر والد صاحب سے سختی سے کہلوایا گیا تو میں بادل ناخواستہ شیراڈ سے اتر کر بلٹ پروف گاڑی استعمال کرنے گا۔ (قارئین کو یاد ہوگا کہ انہی دنوں انتہا پسندوں نے وزیراعظم کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی ماڈل ٹائون سے جاتی امراء کے راستے میں پل کے نیچے نصب شدہ بم، وزیراعظم کی گاڑی پہنچنے سے قبل پھٹ گیا تھا)
غریبوں کیلئے الگ اور ہم جیسی اشرافیہ کیلئے الگ ’’دو پاکستان‘‘ مجھے مضطرب کئے رکھتے میں سڑک پر سفر کے دوران شہر کے مختلف مقامات پر عوام کے ہجوم دیکھتا…… خواتین اور مرد، بوڑھے اور بچے، دفتروں میں کام کرنے والے ملازم اور دیہاڑی کی بنیاد پر روزگار کے متلاشی محنت کش… اپنی منزل پر پہنچنے کیلئے جنہیں ٹرانسپورٹ کا انتظار ہوتا اور ادھر اشرافیہ کی چمکتی دمکتی پرآسائش ائرکنڈیشنڈ گاڑیاں فراٹے بھرتے اور غربت کا منہ چڑاتے گزر جاتے۔ کبھی لاہور میں عوام کیلئے آرام دہ اومنی بس سروس ہوتی تھی، اس کی پابندی وقت بھی مثالی تھی۔ اب یہ سب کچھ برباد ہو چکا تھا، سڑکوں پر کھڑے ہوئے ہجوم کو کھٹارا بسوں اور خستہ حال ویگنوں کا انتظار ہوتا جن میں یہ بھیڑ بکریوں کی طرح دھکے کھاتے اور گرتے پڑتے سفر کرتے۔
عام آدمی کو درپیش صبح و شام کی یہ اذیت میرے لئے باعث اضطراب تھی۔ میں نے لوکل ٹرانسپورٹ کے لئے ائر کنڈیشنڈ بسیں چلانے کا فیصلہ کیا اور ڈائیوو کے ساتھ 700 ایئر کنڈیشنڈ بسوں کی فراہمی کا معاہدہ کر لیا۔ تب بعض احباب کے خیال میں ایئر کنڈیشنڈ بسوں کی بجائے عام (اور آرام دہ) بسوں سے بھی کام چلایا جا سکتا تھا لیکن میری رائے مختلف تھی‘ کہ گرمی سردی کے خراب موسموں میں عام آدمی پرسکون سفر کیوں نہ کرے۔
700 ایئر کنڈیشنڈ بسوں میں سے 50 بسوں کی پہلی کھیپ کراچی بندرگاہ کے لیے روانہ ہو چکی تھی کہ 12 اکتوبر (1999ئ) ہوگیا۔ میں ایک ضروری سرکاری کام کے سلسلے میں پرائم منسٹر ہاؤس میں تھا جب رات کو کور کمانڈر جنرل محمود پرائم منسٹر ہاؤس آئے اور ہم دونوں بھائیوں کو گرفتار کرکے اپنی سیاہ گاڑی میں بٹھا لیا۔ پچھلی سیٹ پر ایک طرف میاں صاحب‘ دوسری طرف میں اور درمیان میں جنرل صاحب خود تھے (اس شب کی کہانی پھر کبھی بیان کریں گے)۔ راولپنڈی کے آرمی میس پہنچ کر پہلے میاں صاحب اور پھر مجھے اتارا گیا۔ یہاں ایک کمرہ میرا ٹھکانہ تھا۔ ایک ہفتے بعد‘ ایک مہربان فوجی جوان نے چپکے سے بتایا کہ ساتھ والے کمرے میں میاں صاحب مقیم ہیں۔ تقریباً تین ہفتے بعد پتہ چلا کر میاں صاحب کو شفٹ کر دیا گیا ہے۔ چند دنوں بعد مجھے بھی مری پہنچا دیا گیا۔ یہاں گورنر ہاؤس میں انیکسی کا ایک کمرہ میری قیام گاہ تھی‘جس کے دروازے اور کھڑکیوں پر موٹا سیاہ کاغذ چپکا دیا گیا تھا کہ روشنی کی کوئی کرن باہر سے اندر اور اندر سے باہر نہ جا سکے۔ خراب کموڈ بھی اعصاب کا امتحان لینے کا ایک اور حربہ تھا۔ کوئی ایک ہفتے بعد معلوم ہوا کہ میاں صاحب بھی ادھر ہی ہیں۔ قید تنہائی کے کئی ہفتے گزُر چکے تھے جب ایک روز فون پر گھر والوں سے مختصر سی بات کروائی گئی۔ دو (2) ہفتے بعد‘ صبح دس سے گیارہ بجے (ایک گھنٹہ) واک کی اجازت مل گئی۔ سخت نگرانی میں بھی سردیوں کی یہ دھوپ ایک عظیم نعمت سے کم نہ تھی۔
ایک شب ایک بجے کے قریب ایک میجر صاحب آئے جس پر میں نیند سے بیدار ہو گیا۔ اس بے وقت ’’مداخلت بیجا‘‘ پر میں نے سخت احتجاج کیا تو وہ اگلے دن آنے کا کہہ کر چلے گئے۔ اگلے روز آئے اور بتایا کہ آج شام کرنل صاحب کے ساتھ ’’گپ شپ‘‘ ہوگی۔ عشاء کے بعد مجھے جس کمرے میں لے جایا گیا‘ وہ روشنی سے چکا چوند تھا اور کیمرے بھی نصب تھے۔ معلوم ہوا کہ کرنل صاحب انٹیروگیشن کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے انٹیروگیشن کے اس طور طریقے پر احتجاج کرتے ہوئے انکار کر دیا جس پرخاصی گرما گرمی ہوگئی۔ میجر صاحب نے ماحول کو ٹھنڈا کیا اور چائے منگوا لی۔ گفتگو کا رُخ بھی بدل گیا تھا۔ کرنل صاحب نے ہلکے پھلے انداز میں پوچھا‘ اڑھائی‘ تین سال کی حکومت میں کوئی دو تین کام جو آپ کے خیال میں بہت اہم ہوں؟ میں نے عوام کے لئے ایئر کنڈیشنڈ بسوں کے منصوبے کو سرفہرست بتایا‘ اور پوچھا‘ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پچاس بسوں کی اس پہلی کھیپ کا کیا ہوا؟ اُنہوں نے کہا کہ وہ پوچھ کر بتائیں گے۔ وہ حیران تھے کہ ان مشکل حالات میں بھی مجھے اپنے اہل خانہ سے زیادہ ان بسوں کی فکر ہے۔ اگلے دن مجھے بتایا گیا کہ پچاس ایئرکنڈیشنڈ بسوں کی وہ کھیپ پاکستان پہنچ چکی ہے۔ بدترین ابتلاء اور آزمائش میں یہ خبر میرے لئے قلبی مسرت اور ذہنی سکون کا باعث تھی۔ (جاری ہے)