لانس نائیک محفوظ شہید اوائل عمری سے دلیر ، باوقار اورخودار تھے،اہلخانہ

اسلام آباد(صلاح الدین خان سے )لائنس نائیک محمد محفوظ شہید نشان حیدر کی جرآ ت و بہادری پر ان کے خاندان ، گائوں، وطن پاکستان کو فخر ہے دشمن بھی ان کی بہادری کے معترف ہیں ان خیالات کا اظہار یوم دفاع کے موقع پر ان کے بڑے بھائی واہلیان علاقہ نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں بتایا کہ لائنس نائیک محمد محفوظ25اکتوبر 1944میں( گائوں) پنڈ ملکاں ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے اب اس گائوں کا نام محفوظ آباد رکھ دیا گیا ہے محمد محفوظ کی والدہ بچپن ہی میں فوت ہوگئیں تھیں جبکہ والدنے 2003ء میں وفات پائی وہ دو بھائی اور دو بہنیںپر مشتمل چار بہن بھائی تھے ایک بہن کی شادی ٹیکسلا اور ایک کی لاہور میں ہوئی ہے ،لانس نائیک محمد محفوظ شہید بچپن ہی سے بہت دلیر ، باوقار، خودار پراعتماد شخصیت کے مالک تھے انہوں نے ابتدائی تعلیم گائوں سے حاصل کی بچپن ہی سے تیراکی اور کبڈی کا شوق تھا بہترین کبڈی کے حوالے سے ارد گرد کے علاقوں میں جانے جاتے تھے کبڈی ٹیم کے کیپٹن تھے فوج میں آنے کاشوق اپنے دادا گلزار خان کی کہانیوں سے ملا وہ اپنے دادا سے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے مسلمان جرنیلوں کی کہانیاں سنتے یوں ان کہانیوں سے متاثر ہوکر 25اکتوبر 1962ء میں آرمی میں شمولیت اختیار کی اور مئی 1963ء 15پنجاب رجمنٹ میں(کوئٹہ)میں تعینات ہوئے ۔لائنس نائیک محمد محفوظ شہید کمپنی پلاٹون نمبر 3ایل ایم جی کے فائرز(گنر)تھے ،1971ء کی پاک بھارت جنگ میں15پنجاب رجمنٹ(33محمدی)10ڈویژن کا حصہ تھی جو لاہور واہگہ کے محاز پر تعینات تھی17دسمبر کی رات پنجاب کی ایک کمپنی جس کا ہر اول پلاٹون 3تھی محفوظ شہید اس کا حصہ تھے کو  ’ ’پل کنجری ‘‘  گائوں پر حملے کا حکم ملا جو دشمن کے علاقہ تھا اور کچھ بلندی پر تھا دشمن کی ایک کمپنی اس پر متعین تھی وہاں دشمن نے دفاع کے لیے بہت مضبوط موچہ بندی کررکھی تھی کچھ وجوہات کے باعث حملہ اپنے مقررہ وقت سے کچھ دیر بعد کیا گیا ، پاکستانی کمپنی جو اندھیرے میں محفوظ تھی فائرنگ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی پاکستانی پلاٹون دشمن کے موچہ سے70گز دور تک پہنچ چکی تھی مگر صبح کی روشنی پھیلتے ہی دشمن ہماری کمپنی پر کارگر فائر کرتا رہا دشمن کے توپ خانہ اور گن فائرنگ اتنی شدید تھی کہ زرا سی حرکت کا دوسرا نام موت تھا دشمن نے پہلووں اور سامنے سے ہر اول پلاٹون کو گھیر رکھا تھا اور مسلسل فائر نگ ہورہی تھی لائنس نائیک محمد محفوظ نے ہمت نہ ہاری دشمن کی طرف فائر جاری رکھا اس دوران دشمن کا ایک بم لائنس نائیک محمد محفوظ کے قریب پھٹا جس کے ٹکڑے ان کے جسم پرلگے جبکہ ٹانگیں بھی شدید زخمی ہوگئیں ان کی گن بم کے گولہ کے پھٹنے کے باعث ناکارہ ہوچکی تھی انہوں نے قریبی ہی ساتھی شہیدکی گن جو خالی پڑی تھی اٹھا لی ،لائنس نائیک محمد محفوظ رینگتے ہوئے گئے اور گن اٹھا کر دشمن پر فائرنگ شروع کردی اس دوران انہوں نے دیکھا کہ دشمن کی ایک گن ان کے مورچوں پر تباہ کن او ر موثر فائر کررہی ہے اور ان کے جوان تیزی سے شہید ہو رہے ہیں وہ اسی طرف بڑھے اور دشمن کے مورچے سے تقریبا دس قدم دور کھڑے ہوئے اور دشمن کے مورچے کی طرف بڑھے اس دوران دشمن نے ان کو دیکھ کر گولی چلائی جس کے لگنے سے ان کی گن ہاتھ سے چھوٹ گئی مگر وہ بہادری سے دوڑتے ہوئے دشمن کے مورچہ میں کود پڑے اور دشمن کے گنر کی گردن دبوچ لی جبکہ دشمن کے دیگر دو ساتھیوں نے ان پر سنگینوں کے وار کیے مگر لائنس نائیک محمد محفوظ نے دشمن کے گنر کی گردن اس وقت تک دبوچ کررکھی جب تک وہ جہنم واصل نہیں ہوگیا اس دوران سنگیوں کے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انہوں نے بھی جام شہادت نوش کیا لانس نائیک محمد محفوظ کے شہید ہونے کے بعد بھی دشمن اپنے ساتھی کی گردن بامشکل لائنس نائیک محمد محفوظ کے آہنی ہاتھوں کے شکنجوں سے آزاد کرا پائے ، اس دوران دشمن کی تین سکھ لائٹ انفنٹیری کے کمانڈنٹ آفیسر لیفٹیننٹ پورمی جو کہ اگلے مورچہ میں تھا وہ لائنس نائیک محمد محفوظ کی جرآت و بہادری کی کی کارروائی دیکھ رہا تھا متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ فائر بندی کے بعد جب شہدا کی لاشیں اٹھائی جارہی تھیں تو دشمن نے لائنس نائیک محمد محفوظ شہید کی لاش خود اٹھا کر پاک فوج کے حوالے کی اور دشمن کمانڈنٹ آفیسر نے لائنس نائیک محمد محفوظ شہید کی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے الفاظ کہے کہ۔۔۔اپنی تمام سروس کے دوران اتنا بہادر جوان کھی نہیں دیکھا اگر انڈین آرمی کا جوان ہوتا تو آج میں اس بہادر جوان کو انڈین آرمی کے سب سے بڑے فوجی اعزاز’’ویر چکرا‘‘ کے لیے پیش کرتا۔۔۔23مارچ 1972 ء کو حکومت پاکستان کی جانب سے لائنس نائیک محمد محفوظ شہید کو بعداز شہادت پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز  ’’نشان حیدر‘‘  سے نوازا گیا 

ای پیپر دی نیشن