عمران خان کا ریاستی اداروں سے ٹکرائو والا راستہ 

میرا خدشہ درست ثابت ہوا۔ اتوار کے دن عمران خان صاحب فیصل آباد میں ہوئے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے نومبر میں متوقع ’’تعیناتی‘‘ کو جس انداز میں زیر بحث لائے اس نے وطن عزیز کے اہم ترین ریاستی ادارے کو چراغ پا بنادیا،۔آئی ایس پی آر کی جانب سے حیرانی اور پریشانی کا اظہار کرتی ایک پریس ریلیز بھی منظر عام پر آچکی ہے۔منگل کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔عمران خان صاحب نے آج شام پشاور میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرنا ہے۔
مجھ ’’لفافہ صحافی‘‘ کو تحریک انصاف کے فیصلہ ساز حلقوں تک رسائی میسر نہیں۔ میرے لئے یہ اندازہ لگانا لہٰذا ممکن نہیں کہ ’’وہ کیا کہیںگے جواب میں‘‘عمران خان صاحب کے خیر خواہوں کا ایک گروہ البتہ توقع باندھے ہوئے ہے کہ وہ چند ’’وضاحتی کلمات‘‘ ادا کرتے ہوئے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کریں گے۔ توقع کے برعکس اس ضمن میں ذاتی طورپر ان سے معاملہ سنبھالتے بیان کاخواہش مند ہوں۔وسوسوں بھرا دل مگر یہ سوچنے کو مجبور کررہا ہے کہ غالباََ وہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کریں گے۔
رواں برس کے اپریل سے وزارت عظمیٰ کے منصب سے فراغت کے بعد عمران خان صاحب نے نہایت مہارت اور لگن سے ایک جارحانہ بیانیہ تشکیل دیا ہے۔اس کی بدولت اپنے دیرینہ حامیوں کو قائل کرچکے ہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین اپنے تئیں اس قابل ہی نہیں تھے کہ باہم مل کر ان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کریں اور وہ کامیاب بھی ہوجائے ۔تحریک عدم اعتماد والی چال کا اصل ذمہ دار انہوں نے امریکہ کو ٹھہرایا۔ مصر رہے کہ روسی صدر پوٹن کے ساتھ ان کی ملاقات نے واشنگٹن کو بوکھلادیا۔ وہاں مقیم ہمارے سفیر کو دھمکی آمیز پیغام دیا گیا۔قومی حمیت سے سرشار عمران خان صاحب اسے کسی خاطر میں نہ لائے تو امریکہ نے ان کی حکومت گرانے کی سازش تیار کرلی۔ مبینہ سازش کی کامیابی یقینی بنانے کے لئے ہماری ریاست کے دائمی اداروں سے چند ’’میر جعفر‘‘ بھی ہم نوا بنالئے گئے۔ اسی باعث ان کی جگہ آئی شہباز حکومت کو وہ مسلسل ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ پکاررہے ہیں۔
عمران خان صاحب کی ’’حقیقی آزادی‘‘ کا ہدف تاہم ’’امپورٹڈ حکومت‘‘کا محض خاتمہ نہیں ہے۔’’میر جعفروں‘‘ کی نشان دہی کو بھی وہ بضد رہے۔ یاد دلائے چلے جارہے ہیں کہ انہوں نے ایک وڈیوریکارڈ کرنے کے بعد محفوظ مقام تک پہنچادی ہے۔انہیں ’’کچھ ہوا‘‘ تو مذکورہ وڈیو منظر عام پر آجائے گی۔اس میں چار اہم افراد کی نشاندہی کردی گئی ہے جنہوں نے ’’امپورٹڈ حکومت کو مسلط‘‘ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ جن ’’چار افراد‘‘ کا وہ تذکرہ کررہے ہیں وہ سیاست دان نہیں۔ اگر سیاستدان ہوتے تو خان صاحب روزانہ کی بنیاد پر ان کے نام لیتے ہوئے حقارت سے ذکر میں مصروف رہتے۔آصف علی زرداری،شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو انہوں نے اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد ایک لمحے کوبھی نظرانداز نہیں کیا ۔’’چار افراد‘‘ یقینا وہ ہوں گے جن کے نام انہوں نے آج تک پبلک میں نہیں لئے۔
اپنے جارحانہ بیانیے کی بدولت تحریک انصاف نے عاشقان عمران خان کے دلوں میں غصے اور نفرت کی جو آگ بھڑکائی ہے وہ ’’ڈومور(Do More)‘‘ کا تقاضہ کررہی ہے۔ ’’قدم بڑھائو عمران خان-ہم …‘‘والا عالم ہے۔سابق وزیر اعظم کی اب یہ سیاسی مجبوری بن چکی ہے کہ وہ اپنے جاں نثاروں کو مسلسل حالتِ جنگ میں رکھیں۔ ’’حالت جنگ‘‘ فیصلہ کن پیش قدمی کا تقاضہ بھی کرتی ہے۔پُرجوش بیانیے کے ساتھ متحرک کئے لشکر کو محض ایک مقام تک محدود رکھنا ناممکن ہے۔پشاور کے جلسے میں اگر وہ ’’وضاحتی‘‘ سنائی دئے تو عاشقان عمران کی نگاہ میں ’’پسپائی‘‘ اختیار کرتے نظر آئیں گے۔
انگریزی کی ایک ضرب المثل ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ کسی زبان میں نسلوں سے استعمال ہوتے محاورے درحقیقت اجتماعی بصیرت کا اظہار ہوتے ہیں۔پنجابی میں بھی ایسا ہی ایک محاورہ ہے۔یہ محلے کے ’’اونترے‘‘ یا اوباش لونڈوں کا تذکرہ کرتاہے جو بیوہ ہوئی خاتون کو چین سے رہنے نہیں دیتے۔عمران خان صاحب نے اقتدار سے محرومی کے بعد جو بیانیہ فروغ دیا اس نے ’’اونترے منڈوں‘‘ کا ایک جارح غول تیار کردیا ہے۔وہ بازار یا کسی ریستوران میں کوئی ’’لفافہ صحافی‘‘ دیکھ لیں تو اس پر آوازے کسنا شروع ہوجاتے ہیں۔عمران خان صاحب کے سیاسی مخالفین کو برسرعام طعنوں سے نوازتے ہیں۔ وہ اپنے قائد کو اب ’’بکری‘‘ ہوا دیکھ نہیں سکتے۔ معاملہ اسی باعث مجھے مزید بگڑتامحسوس ہورہا ہے۔
سیاس محاذ پر تیزی سے بڑھتی یہ کشیدگی مزید پریشانی کا باعث اس لئے بھی ہے کیونکہ پاکستان کا ایک تہائی حصہ ابھی بھی سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔سیلاب نے بے گھر لوگوں کی تعداد کو اب 4کروڑ تک دھکیلنا شروع کردیا ہے۔فصلوں کی تباہی معیشت کو کمزور تر بنانے کے علاوہ ہمارے ہاں خوفناک غذائی بحران کوبھی جنم دے رہی ہے۔دودھ اور گوشت مہیا کرنے والے جانو ر نایابی کا شکار ہورہے ہیں۔سیلابی پانی سے محفوظ ہوئے وسیع تر علاقوں میں بھی بے تحاشہ جانور ایل ایس ڈی نامی وبا کی زد میں آکر جانبر نہیں ہوپائے۔ ابھی چھوٹا کاشتکار اس صدمے کو برداشت بھی نہیں کرپایا تھا تو بھینسوں کی بے پناہ تعداد بھی ’’منہ کھر‘‘ نامی وبا کی زد میں آچکی ہے۔معاشی بدحالی کے اس موسم میں ہماری سرکار کی تمام تر توجہ بے گھر وبدحال گھرانوں کی فوری مدد پر مرکوز ہونا چاہیے تھی۔بعدازاں ایسے طویل المدت منصوبے اور انہیں کامیاب بنانے کے لئے ٹھوس حکمت عملی درکار ہوگی جو سیلاب زدگان کی بحالی ممکن بنائے۔ایسے عالم میں عمران خان صاحب اور ان کے جانثاروں کا ریاستی اداروں سے ٹکرائو ملک کو کامل انتشار کے علاوہ کچھ اور فراہم کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔سیلاب سے محفوظ شہروں میں آباد متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت مگر حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانے کو بھی آمادہ نظر نہیں آرہی۔ اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم اپنے انجام کی جانب خوںخوار انداز میں بڑھ رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن