پاک فضائیہ کے شاہینوں نے نہ صرف چونڈہ ،سیالکوٹ اور لاہور کے محاذوں پر انڈین آرمی پر تباہ کن بمباری کی بلکہ دشمن کے ہوائی اڈوں،جودھپور، آدم پور ،انبالہ،پٹھان کوٹ اور دیگر کو کچھ اس طرح نشانہ بنایا کہ سولہ ستمبر تک انڈین فورس کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ دن کے وقت اس کا کوئی طیارہ نظر نہےں آتا تھا اور اب شاہینوں کو اپنا شکار ڈھونڈنے کےلئے خاصی تگ دوکرنی پڑتی تھی مثلا ایم ایم عالم کو دریائے بیا س سے کافی دور جب دو ہنٹر نظر آئے تو انہوں نے بھارتی فضاﺅں میں داخل ہو کر انہےں مار گرایا۔امرتسر کے قریب فلائیٹ لیفنیٹ یوسف علی خان نے ایک نیٹ مار گرایا۔انیس ستمبر کو چونڈہ میں جو نیٹ گرایا گیا ،اس کے پائلٹ مہادیو کو گرفتار کر لیا گیا ۔اکیس ستمبر کو ایک اور انڈین پائلٹ ’موہن لال‘کے جہاز کو گرا کر اسے گرفتار کر لیا گیا ۔جنگ کے آخری روز کھیم کرن کی فضا میں بھارتی طیارہ تباہ کیا گیا جس کا پائلٹ ہندوستان کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل کری اپا کا بیٹا تھا ۔اس کا پائلٹ جونیئر کری اپا قیدی بنالیا گیا۔بائیس اور تیئس ستمبر کی درمیانی شب صبح تین بجے جنگ بندی ہوگئی۔پاک فضائیہ کے سربراہ جنرل ایئر مارشل نور خان کا کہنا تھا ”بھارت سے جنگ لڑنے کے بعد پاک ایئر فورس پہلے سے کئی زیادہ مضبوط ہوگئی ہے“۔انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ”جنگ کے دوران میرے لئے مسئلہ نہےں تھا کہ پاک ہوا بازوں کو کیسے حملے کےلئے بھیجوں بلکہ دشواری یہ پیش آگئی تھی کہ انہےں آگے بڑھ بڑھ کر حملے کرنے سے کیسے روکوں“۔
بہرحال فضائی جنگ کا سکور یہ رہا کہ دشمن کے ایک سو دس طیارے مار گرائے گئے جن میں پینتیس کو فضائی معرکوں میں گرایا ،پینتالیس کو زمین پر تباہ کیا گیا اور بتیس زمینی توپوں کا نشانہ بنے ۔یاد رہے کہ ان اعداو شمار میں بھارت کے وہ پچیس طیارے شامل نہےں جو ایک امریکی نامہ نگار کے مطابق انبالہ کے ہوائی اڈے پر تباہ کےے گئے ۔شاہینوں نے ایک سو پچاس ٹینک، چھ سو فوجی گاڑیاں اور گولہ بارود سے بھری چار بھارتی ٹرینیں اور سو کے قریب توپیں تباہ کیں۔دراصل حقیقی اعداد وشمار تو اس سے کہیں زیادہ ہےںلیکن پاک فضائیہ نے دشمن کی صرف اس تباہی کو اپنے ریکارڈ میں لکھا ہے جس کی دستاویزی گواہی حاصل ہوئی ہے۔
دیگر ذرائع تو دشمن کا نقصان اس سے زیادہ بتاتے ہےں ۔سات بھارتی ہوا بازوں کو جنگی قیدی بنایا گیا اور ایک جہاز کو صحیح سلامت اتار کر قبضے میں لیا گیا جسے سکوارڈن لیڈر برج پال سنگھ اڑا رہا تھا۔پاک فضائیہ کے 14 طیارے ضائع ہوئے۔ان میں نو فضائی معرکوں ،چار زمنی فائر اور ایک دشمن کی باردو سے بھری ریل گاڑی کو تباہ کرتے ہوئے باردو پھٹنے سے تباہ ہوگیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنگ ستمبر میں بھارتی ریڈیو نے روایتی جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے تباہ ہونے والے پاک فضائیہ کے طیاروں کی تعداد چار سو بہتر بتائی ہے۔اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے اس جنگ کے 37برس بعد یعنی جنوری 2002میں ائیر مارشل ارجن سنگھ کو دہلی سرکار نے فضائیہ کا سب سے بڑا منصب مارشل آف دی ائیر فورس عطا کر دیا۔موصوف 2016میں 98برس کی عمر میں وفات پا گئے۔بھارت سرکار کی اس دریا دلی کی وجہ خود بھارتی مبصرین بھی تلاش نہےں کر پائے کیوں کہ 1965میں انڈین ائیر فورس کے وائس چیف آف ائیر سٹاف پی سی لال کے مطابق انڈین ایئر فورس کے اس وقت کے سربراہ ایئر مارشل ارجن سنگھ اور بھارتی قیادت کے مابین باہمی رابطے کا خطرناک حد تک فقدان تھا ۔ایک اور مغربی مبصر فرینک مورس نے ستمبر 1965کے آخری ایام میں اپنے تبصرے میں کہا تھا کہ ’بھارتی فضائیہ کا سربراہ ارجن سنگھ بھارتی فضاﺅں اور اپنی ایئر فورس کے تحفظ میں بری طرح ناکام رہا ‘۔ایسے میں انھیں کس خدمت کے عوض یہ ایوارڈ دیا گیا؟
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ دہلی کے حکمرانوں نے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر میں بدترین ظلم و بربریت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور پاکستان کے مختلف حصوں میں بھی بد امنی کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ چند روز قبل نریندر مودی نے بحری بیڑے ” وکرانت“ کا ہندوستانی بحریہ میں کمیشن کیا، اس موقع پر بھارتی میڈیا میں جو زبان پاکستان کیخلاف استعمال کی گئی، وہ حد درجہ اشتعال انگیز تھی۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بی جے پی سرکار نے اس بیڑے کا کمیشن تو کر لیا لیکن اس بیڑے پر طیاروں کی لینڈنگ اور اڑان کی مشق ہی نہ کی گئی اور ان مشقوں کے بعد یہ بیڑا دسمبر 2023 میں صحیح طرح فعال ہو پائے گا۔ اس تناظر میں انسان دوست حلقوں کا کہنا ہے کہ ہندوستانی حکمرانوں کو کسی جارحیت سے قبل اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ہو گا کہ پاکستان کا دفاع الحمداللہ مضبوط ہاتھوں میں ہے اور افواج پاکستان دنیا کی منجھی ہوئی عسکری قوت کے طور پر دنیا بھر میں اپنی جنگی استعداد و مہارت کا لوہا منوا چکی ہےں۔ بہر کیف57 واں یوم فضائیہ مناتے ہوئے پوری قوم اپنے شہیدوں اور غازی شاہینوں کو سلام کرتی ہے ۔ (ختم شد)