ردِ قادیانیت میں علماءکا کردار 

 7ستمبر 1974ءکا دن تاریخ ساز دن ہے جس میں اہل حدیث ، دیوبند ، بریلوی مکاتب فکر کے مشائخ و شیوخ نے ان تھک جد د جہد اور قربانیوں کے بعد مرزائیوں قا دیانیوں کو غیر مسلم (کافر)قرار دیا گیا۔ اس واقعہ کی یاد میں اس دن کو یوم فتح کے نام سے ہر سال منایا جا تا ہے۔ 7ستمبر 1974ءکا دن ہمارے لئے کسی خوشی و سعادت سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ ہمارے اکابرین و اسلاف کی کوششوں اور لاتعداد قربانیوں کا ثمر ہے جن کی کاوششوں سے ایک دیرینہ مسئلہ حل ہوا لیکن اس دن کے بعد قادیانیوں نے آئین سے بغاوت کرتے ہوئے خود کو غیر مسلم (کافر)تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔1891میں جب مرزا غلام قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعو ی کیا تو سب سے پہلے مولانا محمد حسین بٹالوی نے اسکے کفر کو بے نقاب کیا اور سید نذیر حسین محدث دہلوی سمیت دو سو علماءکے دستخطوں سے متفقہ طور پر مرزا غلام قادیانی کے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا فتوی جاری کیا۔مرزاقادیانی سے سب سے پہلا مباہلہ جون 1893میں عید گاہ اہل حدیث امر تسر میں مولانا عبدالحق غزنوی نے کیا۔ حیات مسیح پر پہلا تحریری مناظرہ مونا بشیر احمد شہسوانی نے دہلی میں 1894 ءمیں کیا جہاں مرزا ملعون فرار اختیار کر گیا اسکے بعد سب سے پہلا کتابچہ مولانا اسماعیل علی گڑھی نے تحریر کیا سب سے پہلے کتاب کم عمری میں علامہ قاضی سلیمان منصور پوری نے لکھی جو کہ بعد میں شہرہ آفاق سیرت نگار کے طور پر مشہور ہوئے سب سے پہلے قادیان پہنچ کر مرزا غلام قادیانی اور مرزائیت کی دھجیاں اڑانے والی عظیم شخصیت شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امر تسری کی تھی جن کو تمام مکاتب فکر فاتح قادیان کے لقب سے یاد کرتے ہیں یہی وہ مولانا ثناءاللہ امر تسری ہیں جن کے ساتھ مباہلہ کی دعا میں مرزا قادیانی ہلاک ہوکر جہنم واصل ہوا۔علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کی ”القادیانیت “، ”مرزائیت اور اسلام“،عربی، اردو میں شائع کرکے عظیم کارنامہ سر انجام دیاعلمائے اہلحدیث، دیوبند ، بریلوی مکتب فکر کے مشائخ نے تحریک ختم نبوت میں بے مثال قربانیاں دی ہیں جن کو بیان کیا جائے تو مکمل کتابچہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ آغاشورش کاشمیری مرحوم نے اپنی زندگی کی آخری تصنیف تحریک ختم نبوت میں لکھا ہے مولانا محمد حسین بٹالوی اہل حدیث کی وہ بلند پا یہ شخصیت ہیں اور چوٹی کے اہل حدیث عالم دین تھے جو سب سے پہلے قادیانیت کیخلاف میدان میں کودے اور مرزا ملعون کو مناظرہ کا چیلنج دیا جو وعدے مواعید کرتا اور تاریخوں پرتاریخیں دیتا رہا لیکن مدمقابل آنے سے گریز کرتا رہا۔ بالآخر مولانا محمد حسین بٹالوی اپنے استاذ گرامی قدر محدث وقت سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مرزا کے کفر پر ان سے فتوی لیا پھر تمام مکاتب فکر کے ممتاز علمائے کرام کے پاس جا کر دو صد سے زائد علمائے عظام کے اس پر دستخط لئے (تحریک ختم نبوت از شورش کاشمیری صفحہ 40مطبوعات چٹان لاہور)۔ فتنہ قادیانیت کا آغاز ہندوستان کے ایک قصبہ ”قادیان“سے ہوا اس کا بانی ایک انگریز کا خود ساختہ ایجنٹ ”مرزا غلام قادیانی“ تھا۔ 1953 ءکی ختم نبوت کی تحریک میںعلمائے دیوبند ، بریلوی مکتب فکر کے علمائے مشائخ کیساتھ سر فہرست علمائے اہل حدیث کا کردار اس پر پاور بنا ۔مولانا سید محمد داﺅد غزنوی اس تحریک کی مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل تھے، مولانا محمد اسماعیل سلفی آف گوجرانوالہ ، مولانا عبدالحمید سوہدری، علامہ محمد یوسف کلکتوی کراچی، مولانا معین الدین لکھوی ، مولانا حکیم عبد الرحمن آزاد گوجرانوالہ، مولانا محمد عبد اللہ گورداسپوری مولانا عبد الرشید صدیقی ملتان، مولانا عبد اللہ احرار، مولانا حکیم عبد الرحیم اشرف، مولانا حافظ اسماعیل روپڑی ، مناظر اسلام مولانا حافظ عبد القادر روپڑی ، مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیح راولپنڈی ، مولانا حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری ، مولانا علی محمد صمصام ، مولانا احمد دین گھگڑوی کے علا وہ ہزاروں علمائے اہل حدیث جو اس زمانے میں تھے انکا کردار ختم نبوت کی تحریک میں نمایاں رہا جس میں سے اکثر و بیشتر نے قیدو بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا اس تحریک میں مولانا علی محمد صمصام، مولانا احمد دین گکھڑوی ، مولانا محمد صدیق ، مولانا محمد ابراہیم خادم تاندلیانوالہ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔اس دور کے ان بلند پایہ علمائے مشائخ نے قادیانیت تحریک میں حصہ لیکر قادیانیت کے پڑخچے اڑا دئیے۔ جب 29 مئی 1974 ءکو نشتر طلبہ کے ایک گروپ پر اور ایک قافلے پر قادیانیوں نے حملہ کیا اس میں کئی لوگ خون میں نہا گئے۔ پھر یہ تحریک چلتی چلتی قومی اسمبلی تک جا پہنچی اور طویل بحث کے بعد7 ستمبر1974 کو متفقہ طور پر قادیانیوں کو مکمل طور پر غیر مسلم کافر قرار دیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن